آزاد میڈیا آرگنائزیشن ‘دی کشمیر والا’ کے بانی مدیر فہد شاہ دہشت گردی کے الزام میں 18 ماہ سے جموں کی جیل میں بند ہیں، جبکہ اس کے ٹرینی صحافی سجاد گل بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جنوری 2022 سے اتر پردیش کی جیل میں بند ہیں۔ ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی اس کارروائی کے علاوہ انہیں سری نگر میں اپنے مالک مکان سے دفتر خالی کرنے کا نوٹس بھی ملا ہے۔
سری نگر: مرکزی حکومت نے مبینہ طور پر سری نگر کے نیوز آؤٹ لیٹ ‘دی کشمیر والا’ کی ویب سائٹ کو بلاک کر دیا ہے۔ اس ادارے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی ہٹا دیے گئے ہیں، جسے ادارےنے جموں و کشمیر میں اپنے کام کے لیے ‘ایک اور مہلک دھچکا’ قرار دیا ہے۔
یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کشمیر والا کے بانی مدیر فہد شاہ دہشت گردی کے الزام میں 18 ماہ سے جموں جیل میں بند ہیں، جبکہ اس کے ٹرینی صحافی سجاد گل بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جنوری 2022 سے اتر پردیش کی جیل میں بند ہیں۔
ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کے تحفظ کے لیے 2018 میں قائم ‘فری اسپیچ کلیکٹو’ کی بانی مدیر گیتا سیشو نے حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا،’کشمیر میں میڈیا تقریباً غائب ہو چکا ہے۔ دی کشمیر والا میں صحافیوں کی نوجوان ٹیم تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی رپورٹ کو شائع کرنے اور حکام سے سوال کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اب، خبروں کے لیے ایک اور آزاد جگہ بند کر دی گئی۔’
کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے بھی اس واقعے کے بارے میں ٹوئٹ کیا اور کشمیر میں آزادی صحافت کے خراب حالات کی طرف اشارہ کیا۔
Kashmir story in short pic.twitter.com/JzUMSUT16g
— Anuradha Bhasin (@AnuradhaBhasin_) August 21, 2023
یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم(یو ایس سی آئی آر ایف)، دی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جر نلسٹس اور کرسچن سائنس مانیٹر سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نےہندوستانی حکومت سے فہد شاہ کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
فہد کی گرفتاری کے بعد ذمہ داری سنبھالنے والے دی کشمیر والا کے عبوری مدیر یش راج شرما کی طرف سے شیئر کیے گئے ایک بیان میں ادارے نے کہا کہ عملے نے پایا کہ ویب سائٹ اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ تک رسائی سنیچر(19 اگست) کو روک دی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ،جب ہم نے اپنے سرور فراہم کرنے والے سے یہ دریافت کرنے کے لیے رابطہ کیا کہ دی کشمیر والا ڈاٹ کام ویب سائٹ کیوں نہیں کھل پا رہی ہے، تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہماری ویب سائٹ کو وزارت الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی آئی ٹی ایکٹ 2000 کے تحت ہندوستان میں بلاک کر دیا گیا ہے۔
Statement: When we contacted The Kashmir Walla's server provider to ask why https://t.co/zniqt5p3zU was inaccessible, they informed us that our website has been blocked in India by the MEITY under the IT Act, 2000. pic.twitter.com/3FOwFEJwVU
— yashraj sharma (@yashjournals) August 20, 2023
مرکزی حکومت انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ، 2000 (آئی ٹی ایکٹ) کی دفعہ 69اےکے تحت ملک کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ یا جرم پر اکسانے کی روک تھام سمیت دیگر وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان سے باہر کام کرنے والی ویب سائٹس کو بلاک کر رہی ہے۔
اگر ثالث حکومت کی ہدایات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے قید کی سزا دی جاسکتی ہے، جو سات سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
دی کشمیر والا کے ایک بیان کے مطابق، اس کے عملے کو بعد میں احساس ہوا کہ ادارے کا فیس بک پیج، جس کے تقریباً 5 لاکھ فالوورز تھے، کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے ایکس (سابقہ نام ٹوئٹر) اکاؤنٹ کے 54000 سے زیادہ فالوورز ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ ‘قانونی مطالبے کے جواب میں ہندوستان میں بھی اس پر پابندی لگا دی گئی ہے‘۔
دی کشمیر والا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ،اس اقدام کے علاوہ، اب ہمیں سری نگر میں ہمارے دفتر کے مالک مکان کی طرف سے بے دخلی کا نوٹس بھیجا گیا ہے اور ہم دفتر کو خالی کرنے کے عمل میں ہیں۔’
بیان کے مطابق، ‘ہمارے پاس اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ ہماری ویب سائٹ کو ہندوستان میں کیوں بلاک کیا گیا ہے؛ ہمارا فیس بک پیج کیوں ہٹایا گیا اور ہمارا ٹوئٹر اکاؤنٹ کیوں معطل کیا گیا ہے؟ ہمیں ان کے حوالے سے نہ تو کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی کوئی سرکاری حکم۔ یہ غیرشفاف سینسرشپ دل ہلا دینے والی ہے۔’
بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ’ابھی بھی جاری واقعات پر کام کر رہا ہے، جو گزشتہ سال فروری میں فہد شاہ کی گرفتاری کے ساتھ شروع ہوا تھا، جب جموں و کشمیر پولیس نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں گولی باری کی رپورٹنگ کے لیے انہیں گرفتار کیا تھا۔
قومی اور بین الاقوامی اشاعتوں کے لیے کشمیر سے بڑے پیمانے پر رپورٹنگ کرنے والے فہد کو پلوامہ میں ہوئی گولی باری کی ‘غلط رپورٹنگ’ کے لیے تین اور صحافیوں کے ساتھ پولیس کی پوچھ گچھ کے تین دن بعد 4 فروری 2022 کوگرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان واقع جیش محمد تنظیم کے ایک اعلیٰ کمانڈر زاہد وانی کو اس کے تین مبینہ ساتھیوں – ایک مشتبہ پاکستانی دہشت گرد کفیل بھاری عرف چھوٹو، ایک مقامی دہشت گرد وحید احمد ریشی اور عنایت احمد میر(اس گھر کے مالک کا بیٹا،جہاں انکاؤنٹر ہوا تھا) کے ساتھ گرفتار کیا گیاتھا۔
واقعے کے بعد جموں و کشمیر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عنایت نے ‘حال ہی میں’ دہشت گردی میں شمولیت اختیار کی تھی، حالانکہ اس کے خاندان نے ابتدائی طور پر پولیس کے بیان کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں عنایت کو ‘بےقصور’ بتاتے ہوئے اس کی لاش کا مطالبہ کرنے کے لیے سری نگر میں احتجاج بھی کیا تھا۔
بعد میں عنایت کی بہن نے پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران اپنے خاندان کے دعووں کو واپس لے لیا تھا، جس کے بعد دی کشمیر والا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جسے 12 سال سے زائد عرصہ قبل فہد شاہ نےایک بلاگ کے طور پر قائم کیا تھا۔
دی کشمیر والا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘اس کے بعد ان کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ چار ماہ کے اندر انہیں (فہد) پانچ بار گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور ایک پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت تین ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔’
مزید کہا گیا ہے، ‘گزشتہ 18 ماہ سے، ہم اپنے بانی مدیر کی گرفتاری اور قید اور خطے میں صحافت کے لیے پہلے سے ہی مشکل ماحول کے درمیان اپنے صحافیوں اور عملے کو ہراساں کیے جانے کے ساتھ ایک خوفناک اور برےخواب سے گزر رہے ہیں۔’
ریاستی تحقیقاتی ایجنسی (ایس آئی اے)، جو خاص طور پر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے معاملات کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی ہے، نے اپریل 2022 میں کشمیر والا کے دفتر کے ساتھ ساتھ سری نگر میں فہد شاہ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا۔
یہ کشمیر یونیورسٹی کے اسکالر علاء فاضلی کی طرف سےلکھا گیا ایک مضمون تھا جو ‘سیڈیشن’کی جاری تحقیقات کے سلسلے میں تھا، جس کو2011 میں دی کشمیر والانے شائع کیا تھا۔
فاضلی کو بھی اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ گزشتہ سال سے جموں کی جیل میں بند ہے۔ اس معاملے میں فہد شاہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں 25 اگست کو ہونے والی ہے۔
دی کشمیر والا نے ایک بیان میں کہا، ’چھاپے ماری کے دوران ہمارے زیادہ تر الکٹرانک آلات ضبط کر لیے گئے، صحافیوں سے پوچھ گچھ کی گئی اور تمام دستاویزات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ اس کے بعد سے ہمارے عبوری مدیر کوایس آئی اے کی جانب سے کئی بار بلایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔
اس سے قبل، جموں و کشمیر پولیس نے 19 مئی 2020 کو سری نگر میں ایک انکاؤنٹر کی دی کشمیر والا کی کوریج کے حوالے سے فہد شاہ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جس کے دوران ایک درجن سے زائد مکانات زمین بوس ہو گئے تھے۔
مقامی لوگوں نے سیکورٹی فورسز پر ان کے گھروں کو آگ لگانے سے پہلے نقدی اور زیورات لوٹنے کا الزام لگایا تھا، حالاں کہ حکام نے اس الزام کی تردید کی۔ اس کیس میں فہد کو ضمانت مل گئی ہے۔
دوسرا مقدمہ، جس میں فہد کو گزشتہ سال ضمانت ملی تھی، 30 جنوری 2021 کو شوپیاں میں درج کیا گیا تھا، جب دی کشمیر والا نے رپورٹ کیا تھا کہ فوج شوپیاں کے ایک نجی اسکول کی انتظامیہ پر ‘دباؤ’ ڈال رہی ےھی کہ وہ یوم جمہوریہ کی تقریبات کا اہتمام کرے۔ شوپیاں اس وقت دہشت گردی کا مرکز تھا۔
فوج نے اس الزام کی تردید کی اور پولیس میں شکایت درج کرائی، جس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کیس میں بھی عدالت نے فہد شاہ کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔