ایک نئے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور راجستھان کے دیہی علاقوں کے اجولا سے فائدہ اٹھانے والے تقریباً 85 فیصدی لوگ ابھی بھی کھانا پکانے کے لئے مٹی کے چولہے کا استعمال کرتے ہیں۔
ایک مئی، 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی اتر پردیش کے بلیا میں اجولا یوجنا کے تحت لوگوں کو رسوئی گیس کنیکشن دیتے ہوئے۔ (فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم اجولا یوجنا کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت ایل پی جی گیس کنیکشن پانے والے دیہی علاقوں کے زیادہ تر دیہی چولہے پر کھانا پکانے کو مجبور ہیں۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار کامپیسنیٹ اکانومکس (آرآئی سی ای)کے ایک نئے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور راجستھان کے دیہی علاقوں میں 85 فیصدی لوگ ابھی بھی کھانا پکانے کے لئے مٹی کے چولہے کا استعمال کرتے ہیں۔
ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی ایک دوسری وجہ گاؤں میں صنفی عدم مساوات بھی ہے۔واضح ہو کہ لکڑی سے کھانا پکانے پر جو فضائی آلودگی ہوتی ہے اس کی وجہ سے بچے کی موت ہو سکتی ہے اور بچے کی نشو ونما پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی بالغوں،خاص طورپر خواتین کے درمیان، ان چولہوں پر کھانا پکانے سے دل اور پھیپھڑوں کی بیماری کا اندیشہ رہتاہے۔2018 کے آخر میں ان چار ریاستوں کے 11 ضلعوں میں آر آئی سی ای ادارہ کے ذریعے سروے کیا گیا تھا۔ اس کے لئے 1550 گھروں کے لوگوں سے بات کی گئی اور ان کے تجربات کو مطالعے میں شامل کیا گیا۔ ان چار ریاستوں میں اجتماعی طور پر ملک کی دیہی آبادی کا تقریباً 40 فیصدی حصہ رہتا ہے۔
اجولا یوجنا2016 میں شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت مفت گیس سلینڈر، ریگولیٹر اور پائپ فراہم کرکے دیہی علاقوں میں رہنے والی فیملی کے لئے ا یل پی جی کنیکشن پر سبسیڈی دی جاتی ہے۔ مرکزی حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 6 کروڑ سے زیادہ فیملی کو اس اسکیم کے ذریعے کنیکشن دیا گیا ہے۔آر آئی سی ای کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سروے کئے گئے چار ریاستوں میں، اسکیم کی وجہ سے گیس کنیکشن رکھنے والی فیملیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سروے کے مطابق ان ریاستوں کے 76 فیصدی فیملی کے پاس اب ایل پی جی کنیکشن ہے۔
حالانکہ، ان میں سے 98 فیصدی سے زیادہ گھروں میں مٹی کا چولہا بھی ہے۔ سروےکرنے والوں نے پوچھا کہ اشیائےخوردنی جیسے روٹی، چاول، سبزی، دال، چائے اور دودھ وغیرہ مٹی کے چولہے پر پکایا جاتا ہے یا گیس چولہے پر۔ اس کے جواب میں انہوں نے پایا کہ صرف 27 فیصدی گھروں میں خاص طورپر گیس کے چولہے کا استعمال کیا جاتا ہے۔وہیں، 37 فیصدی لوگ مٹی کا چولہا اور گیس چولہا دونوں کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ 36 فیصدی لوگ صرف مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتے ہیں۔ حالانکہ، اجولا سے فائدہ اٹھانے والوں کی حالت زیادہ خراب ہے۔
سروے میں پتہ چلا ہے کہ جن لوگوں کو اجولا اسکیم کا فائدہ ملا ہے اس میں سے 53 فیصدی لوگ صرف مٹی کا چولہا استعمال کرتے ہیں، وہیں 32 فیصدی لوگ چولہا اور گیس اسٹوو دونوں کا استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا،جن لوگوں نے خود سے اپنے گھر میں ایل پی جی کنیکشن کا انتظام کیا ہے، ان کے مقابلے اجولا والےکافی غریب ہیں۔ اگر ایسے لوگ سلینڈر دوبارہ بھراتے ہیں تو ان کے گھر کی آمدنی کا اچھاخاصہ حصہ اس میں خرچ ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ فیملی سلینڈر کے ختم ہوتے ہی دوبارہ اس کو بھرانے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ ‘
صنفی عدم مساوات بھی ان سب میں ایک اہم کردار نبھاتا ہے۔ سروے کرنے والوں نے پایا کہ تقریباً 70 فیصدی فیملی ٹھوس ایندھن پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتے ہیں۔ دراصل سبسیڈی شرح پر بھی سلینڈر بھرانے کی لاگت ٹھوس ایندھن کے مقابلے کافی مہنگی ہے۔عام طور پر، دیہی علاقوں میں خواتین گوبر کا اپلا بناتی ہیں اور مرد لکڑی کاٹتے ہیں۔ مطالعے میں یہ کہا گیا ہے کہ خواتین مفت میں اس ٹھوس ایندھن کو اکٹھا کرتی ہیں لیکن انھیں اس محنت کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، گھروں میں خواتین فیصلے لینے کے کردار میں نہیں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے چولہے سے گیس اسٹوو پر شفٹ کرنے میں دقت آ رہی ہے۔