مہا راشٹر: چھ سالوں سے شنوائی کے انتظار میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کارکن کی حراست میں موت

اسٹوڈنٹ رائٹس کےلیے کام کرنے والی مہاراشٹر کے چندرپورضلع کی کارکن کنچن نانورے کو ماؤنواز تحریک میں مبینہ شمولیت کے لیے2014 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سنگین بیماریوں سے جوجھ رہیں کنچن کو ضمانت نہیں دی گئی اور طبیعت بگڑنے پر 16 جنوری کو اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔

اسٹوڈنٹ رائٹس  کےلیے کام کرنے والی مہاراشٹر کے چندرپورضلع کی کارکن کنچن نانورے کو ماؤنواز تحریک میں مبینہ شمولیت کے لیے2014 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سنگین بیماریوں سے جوجھ رہیں کنچن کو ضمانت نہیں دی گئی اور طبیعت بگڑنے پر 16 جنوری کو اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔

کنچن نانورے (فوٹوا سپیشل ارینجمنٹ)

کنچن نانورے (فوٹوا سپیشل ارینجمنٹ)

ماؤنواز تحریک میں مبینہ شمولیت کے لیےسال 2014 میں گرفتار مہاراشٹر کے چندر پور ضلع کی اسٹوڈنٹ رائٹس کارکن کنچن نانورے کی پونے میں سرکاری سسون اسپتال میں موت ہو گئی۔ وہ دل  اوردماغی امراض سے جوجھ رہی تھیں۔

نانورے 38 سال کی تھیں اور آدی واسی کمیونٹی  سے تھیں۔ نانورے کو پیدائش سے ہی دل کی بیماری تھی اور وہ گزشتہ  ہفتےسےدماغ سے متعلق مرض سے جوجھ رہی تھیں۔ان کے اہل خانہ اور وکیلوں کا الزام ہے کہ نہ تو جیل اور نہ ہی اسپتال انتظامیہ  نے انہیں 16 جنوری کو ان کی برین سرجری ہونے تک اس کی جانکاری نہیں دی۔

گزشتہ دو سالوں میں نانورے نے اپنے وکیل کے ذریعے ضمانت کے لیے کئی بار سیشن عدالت اور بامبے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ان کے وکیل پارتھ شاہ کا کہنا ہے، ‘ہر بار ان کی ضمانت عرضی خارج کر دی گئی۔’بامبے ہائی کورٹ کے سامنے اکتوبر میں ایک عرضی  دائر کی گئی تھی، جس میں میڈیکل بنیاد پر اور ان کی لگاتار خراب ہو رہی طبیعت کی وجہ سے ضمانت دیے جانے کی مانگ کی گئی تھی۔

ڈاکٹروں نے انہیں ہارٹ ٹرانس پلانٹ کا مشورہ  دیا تھا، جسے بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا لیکن یہ عرضی  اب بھی زیر التواہے۔جب ان کی ضمانت عرضی پر ہائی کورٹ کےسامنےشنوائی ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے زندہ رہنے کے لیے ہارٹ ٹرانس پلانٹ  ہی واحدراستہ  ہے۔

عدالت نے ان کی صحت  پرغور  کرنے اور طبی  دیکھ ریکھ کے لیے ایک کمیٹی  بھی بنائی تھی لیکن زندگی  اور موت کے اس ااہم  معاملے پر بھی شنوائی میں مہینوں لگ گئے اور اس دوران ان کی موت ہو گئی۔نانورے پر جن نو معاملوں پر کیس درج کیا گیا، ان میں سے چھ میں وہ پہلے ہی بری ہو گئی تھیں۔ تین معاملے ایک گڑھ چرولی، پونے اور گوندیا ابھی بھی زیر التوا ہیں۔

گزشتہ چھ سالوں میں وہ مہاراشٹر کی مختلف جیلوں میں رہیں۔ انہیں ان کے شوہر ارون بیلکے کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور یو اے پی اے کے تحت ان کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ بیلکے فی الحال جیل میں ہیں۔شاہ نے کہا کہ وہ شدید طور پر بیمار تھیں لیکن پھر بھی ان کے اہل خانہ کوفوراً اس کی جانکاری  نہیں دی گئی۔

شاہ نے کہا، ‘بیلکے کی فیملی کو 24 جنوری کو ایک خط ملا، جس میں ان کی(کنچن)بگڑتی حالت کے بارے میں بتایا گیا اور آج ایک فون آیا جس میں کہا گیا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔’وکیلوں کی ایک ٹیم عدالت کا رخ کر رہی ہے کہ ان کی لاش کو چندر پور کے بلارشاہ میں بیلکے کی فیملی کو دیا جائے۔

شاہ نے کہا، ‘ان کی موت کے بعد اہل خانہ  کو امید ہے کہ انہیں لاش مل جائےگی اور آخری رسومات کی ادائیگی  کی جائےگی۔’

نانورے نے 2004 میں اسٹوڈنٹ رائٹس کارکن کے طور پر سماجکی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت سے ان کی معاون انورادھا سونولے یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ نانورے ، بیلکے اور کئی دوسرے طلبا 2004 سے ہی دیش بھکتی یووا منچ کا حصہ تھے۔

سونولے کو بھی کبیر کلا منچ کے کارکنوں کے ساتھ اسی طرح کے الزامات میں2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 2014 میں ضمانت ملی تھی۔سونولے نے کہا، ‘ہم نے کئی طلبا تحریکوں میں حصہ لیا اور کسانوں، آدی واسیوں اور دلت کمیونٹی  سے جڑے کئی مدعوں پر اپنی آواز بھی اٹھائی۔ کنچن اپنی خراب طبیعت کے باوجود متحرک رہیں۔’

دیش بھکتی یووا منچ پر بعد میں ماؤنوازوں کی اغوا تنظیم  ہونے کا الزام لگایا گیا اور نانورے اور بیلکے کو 2008 میں پہلی بار گرفتار کیا گیا۔

ان دونوں اور درجن بھر سے زیادہ اسٹوڈنٹ پر علاقے میں نکسلی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام  لگا اور ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ وہ لگ بھگ سات مہینوں تک جیل میں رہے اور بعد میں انہیں بری کیا گیا۔

نانورے کی صحت کے بارے میں سن کر سونولے ساسون اسپتال پہنچی تھیں۔ انہوں نے بتایا، ‘مجھے ان سے ملنے نہیں دیا گیا لیکن ان کی سرجری کے بارے میں بتایا گیا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ سردرد کی شکایت کر رہی تھیں اور انہیں بلڈ کلاٹ کی پریشانی تھی۔ پونے کی وکیل گائتری کامبلے کو نانورے سے ملنے دیا گیا۔ سرجری کی وجہ سے نانورے بےہوش تھیں۔ بیلکے کو عدالت نے نانورے سے ملنے کی منظوری دی لیکن ان کے وکیلوں کا الزام ہے کہ جیل انتطامیہ نے فوراً ضرروی انتظامات نہیں کیے اور اس بیچ ان کی موت ہو گئی۔’

پچھلے سال مارچ میں ملک  میں کورونا کے معاملے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لےکر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔مہاراشٹر سرکار نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بھی جیل میں بند 11000 سےزیادہ  قیدیوں کو رہا کرےگا۔ کچھ قیدیوں کو رہا کیا گیا لیکن کئی اور کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔

مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ نے بھی من مانے ڈھنگ سے ان قیدیوں کو ضمانت نہیں دی، جن کے خلاف سنگین الزامات ، بینک گھوٹالوں اور مکوکا، پی ایم ایل اے، ایم پی آئی ڈی، این ڈی پی ایس اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے تحت معاملے درج ہیں۔

نانورے پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج تھا اور اس لیے انہیں ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا۔ ان کی بیماری کی بھی ان دیکھی کی گئی۔نانورے کے وکیل روہن ناہر نے کہا کہ جن معاملوں میں 2014 میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں اس میں بھی قصوروار  نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔

ناہر نے دی  وائر کو بتایا، ‘یہ بہت شرمناک  ہے کہ کنچن نانورے کی صحت  خراب ہونے کے باوجود عدالتوں نے انہیں ضمانت نہیں دی۔ ان پر ماؤنواز سرگرمیوں  میں شامل ہونے کا الزام تھا اور المیہ  یہ ہے کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کیا وہ اصل میں اس میں شامل تھیں۔’

دی  وائر نے یروڈا سینٹرل جیل اور سسون اسپتال سے اس پرردعمل  جاننے کی کوشش کی۔ ان کا جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)

Next Article

ہندوستانی حملے کے بعد دعویٰ – مسعود اظہر کے خاندان کے 10 افراد اور چار قریبی ساتھی مارے گئے

ہندوستانی فوج کی جانب سے ‘آپریشن سیندور’ کے تحت پاکستان میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور میں ہوئے حملے میں اس کے خاندان کے دس افراد اور چار ساتھی مارے گئے ہیں۔

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

نئی دہلی: کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور کی سبحان اللہ مسجد پر ہندوستان کے حملے میں ان کے خاندان کے 10 افراد اور 4 قریبی ساتھی بھی مارے گئے۔

بی بی سی اردو نے حملے کے بعد جیش محمد سے منسلک کچھ وہاٹس ایپ گروپ پر گردش کر رہے مسعود اظہر کے بیان کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔ بیان میں، وہ (مسعود اظہر) مبینہ طور پر دعویٰ کر رہاہے کہ حملے میں اس  کے خاندان کے 10 افراد اور چار دیگر قریبی ساتھی مارے گئے۔

کچھ ہندوستانی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اظہر نے دعویٰ کیا کہ مرنے والوں میں اس کی بڑی بہن اور اس کے شوہر، مسعود اظہر کا بھانجہ اور اس کی بیوی، ایک اور بھانجی اور خاندان کے پانچ بچےبھی  شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، حملے میں مسعود اظہر کے ایک قریبی ساتھی، اس کی ماں اور دو دیگر قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

بی بی سی اردو اور دی وائر آزادانہ طور پر سے اس بیان کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

بی بی سی اردو نے کہا کہ بیان میں مرنے والوں کی تفصیلات اور مولانا مسعود اظہر کے ساتھ ان کی مبینہ رشتہ داری کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے، تاہم، اس حوالے سے  ہسپتال یا مقامی انتظامیہ سے  تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

معلوم ہو کہ ’آپریشن سیندور‘ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ہندوستانی فوج نے بدھ کی صبح پاکستانی سرحد کے اندر تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بہاولپور کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

پنجاب کا یہ بڑا شہر دہشت گردوں کی رہائش  کےلیے جانا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر شہر کے احمد پور علاقے میں ہے۔ سال 2000 کے اواخر میں آئی سی -814 کے ہائی جیکروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں کی رہائی کے بدلے ہندوستان کی طرف سے رہائی پانے والے دہشت گردوں میں سے ایک مسعود اظہر کا قائم کیا ہوا جیش محمد گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں ہوئے  دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے۔

Next Article

آپریشن سیندور: ہندوستانی فوج نے پاکستان کے کن نو مقامات کو نشانہ بنایا؟

ہندوستانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے منسلک ہائی پروفائل مقامات- جن کے ہٹ لسٹ میں سرفہرست ہونے کی امید تھی-کے علاوہ ہندوستانی فوج کے آپریشن سیندور نے ان کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے جن میں پہلگام سمیت ہندوستان میں ہوئے مختلف دہشت گردانہ  حملوں کی’جڑیں’ ہیں۔

بہاولپور میں جیش محمد کے ہیڈکوارٹر مسجد سبحان اللہ کی سیٹلائٹ تصویر۔ (تصویر: گوگل میپس)

بہاولپور میں جیش محمد کے ہیڈکوارٹر مسجد سبحان اللہ کی سیٹلائٹ تصویر۔ (تصویر: گوگل میپس)

نئی دہلی: ہندوستانی وزارت دفاع نے بدھ کی صبح پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں’دہشت گرد ڈھانچے’ کے خلاف فوجی حملوں کا اعلان کرتے ہوئے نو مقامات کو نشانہ بنائے جانے کی بات کہی ہے، لیکن اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ کن مقامات پر حملہ کیا گیا۔ تاہم، یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام وہ مقامات تھے ‘جہاں سے ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی  اور ہدایت دی گئی۔’

رپورٹ کے مطابق ، ہدف بنائے گئے مقامات کے بارے میں معلومات سب سے پہلے پاکستان کے اندر مختلف مقامات، بالخصوص بہاولپور سے جلتی ہوئی عمارتوں کی عجلت میں بنائی گئی ویڈیو فوٹیج میں سامنے آئیں۔

ہندوستانی وقت کے مطابق صبح 4:38 بجے، پاکستان کے چیف ملٹری ترجمان نے پاکستان میں ان چھ مقامات کا نام بتائے، جنہیں ان کے بقول نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے چار مغربی پنجاب میں تھے؛ بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ کے گاؤں کوٹکی لوہارا اور شکر گڑھ کے قریب ایک علاقہ، جبکہ باقی دو پی او کے، یعنی مظفر آباد اور کوٹلی میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ کل ’24 حملے’ ہوئے تھے۔

بعد ازاں صبح، ہندوستانی ذرائع نے بی جے پی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو فوج کی طرف سے منتخب کیے گئے نو اہداف کی فہرست اور انہیں کیوں چنا گیا، اس کے اشارے دیے۔ جہاں بہاولپور اور مریدکے کے کردار معروف ہیں لیکن دیگر سات مقامات کے بارے میں دعوؤں کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

بہاولپور، پنجاب

پاکستان کے اندر تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پنجاب کا یہ بڑا شہر دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر شہر کے احمد پور علاقے میں ہے۔سال  2000 کے اواخر میں آئی سی -814 کے ہائی جیکروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں کی رہائی کے بدلے ہندوستان کی طرف سے رہائی پانے والے دہشت گردوں میں سے ایک  مسعود اظہر کے ذریعے قائم کیے گئے جیش محمدگزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے۔

مریدکے، پنجاب

بین الاقوامی سرحد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ قصبہ طویل عرصے سے لشکر طیبہ کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے، جو ہندوستان کو نشانہ بنانے والے سب سے زیادہ فعال اور مہلک دہشت گرد گروہوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کا ماننا ہے کہ حافظ سعید نے 2008 میں ممبئی پر 26/11 کے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مریدکے سے برسوں پہلے چلا گیا تھا اور اب خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لاہور میں ہے۔ اس امکان کے پیش نظر کہ یہ شہر ہندوستان کی ٹارگٹ لسٹ میں ہوگاہی، اس بات کا امکان ہے کہ لشکر نے شہر میں اس کے  اہم اہلکاروں کو رکھا ہوا نہیں ہوگا۔

سرجل کیمپ، ضلع شکر گڑھ، پنجاب

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ جیش محمد کا کیمپ تھا، جو بین الاقوامی سرحد سے تقریباً 8 کلومیٹر دور سامبا-کٹھوعہ کے سامنے واقع تھا۔

مہمونہ کیمپ، ضلع سیالکوٹ، پنجاب

ہندوستانی ذرائع کے مطابق،یہ ایک تربیتی کیمپ تھا جو حزب المجاہدین کے زیر استعمال تھا اور سرحد سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

گل پور، پی او کے

یہ جگہ پونچھ-راجوری کے بالمقابل لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 20 اپریل 2023 کو پونچھ میں ہونے والے ‘حملے’ اور جون 2024 میں بس میں سفر کرنے والے معصوم تیرتھ یاتریوں پر ‘حملوں’ کی جڑیں یہاں کے دہشت گردوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

لشکر کوٹلی کیمپ، پی او کے

راجوری کے سامنے ایل او سی سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس کیمپ کو ‘لشکر بامبر کیمپ’ بتایا جا رہا ہے، جس میں’تقریباً 50 دہشت گردوں’ کی گنجائش ہے۔ تاہم، ایل او سی سے نزدیک ہونے اور ہندوستانی فوجی حملے کی یقین دہانی کے پیش نظر یہ واضح نہیں ہے کہ حملے کے وقت کیمپ میں 50 میں سے کتنے آدمی تھے۔

لشکر سوائی کیمپ، تنگدھار، پی او کے

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ اور اکتوبر 2024 میں سونمرگ اور گلمرگ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی جڑیں ایل او سی کے اندر 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس جگہ سے جڑی ہیں۔

بلال کیمپ، مقام نامعلوم

اسے محض ‘جیش محمد کا لانچ پیڈ’ قرار دیا گیا ہے۔

برنالہ کیمپ، پی او کے

یہ جگہ راجوری کے سامنے ایل او سی سے صرف 10 کلومیٹر دور واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس فہرست اور پاک فوج کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ذریعے جاری کردہ فہرست میں واحد بڑا تضاد مظفرآباد شہر کو مبینہ طور پر نشانہ بنانا ہے۔

پاکستان نے مظفرآباد میں نشانہ بنائے گئے مقام کی شناخت شہر کی بلال مسجد کے طور پر کی ہے۔

Next Article

سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی، کہا – مسلح افواج پر فخر ہے

‘آپریشن سیندور’ کے تحت ہندوستانی فوج کی جانب سے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے نو کیمپوں پر حملے کیے جانے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس کی حمایت کی اور سکیورٹی فورسز کی تعریف کی۔ ان جماعتوں نے کہا کہ قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر 'آپریشن سیندور' کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر ‘آپریشن سیندور’ کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی: مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے بدھ کی صبح پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں نو دہشت گرد کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی ہے ۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا، ‘حکومت ہند، ہندوستانی دفاعی فورسز نے یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کوئی بھی فوجی اور شہری ہدف  نشانہ نہ بنے۔ انہوں نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور لانچنگ پیڈز کو نشانہ بنایا ہے۔’

انہوں نے کہا،’بدقسمتی سے ردعمل متناسب نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے ہم اس حال میں ہیں۔ اگر وہ ہمارے معصوم شہریوں کو نشانہ نہ بناتے تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ ہم نے اسے اکسایا نہیں۔ ہم نے اشتعال انگیزی کا جواب دیا ہے۔ اب پاکستان کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہمارا ردعمل پہلگام کے واقعے تک ہی محدود تھا۔ انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ معاملات قابو سے باہر نہ جائیں۔’

عبداللہ نے کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں پاکستان کی طرف سے جوابی گولہ باری میں شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صورتحال سے نمٹ رہے ہیں اور متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔

‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کانگریس پوری طرح مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ ‘

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے مسلح افواج کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے سے نکلنے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی مضبوط قومی پالیسی ہے۔ ہمیں اپنی ہندوستانی مسلح افواج پر بے حد فخر ہے، جنہوں نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ کیا ہے۔ ہم ان کے عزم اور ہمت کو سراہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دن سےہی انڈین نیشنل کانگریس سرحد پار دہشت گردی کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کارروائی میں مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ قومی اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے اور انڈین نیشنل کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمارے قائدین نے ماضی میں راستہ دکھایا اور ہمارے لیے قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔’

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہے۔ جئے ہند!’

کانگریس کے چیف ترجمان اور سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد منعقدہ آل پارٹی میٹنگ میں حکومت کو کانگریس کی حمایت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان کا عزم ہمیشہ اٹل اور ہمیشہ اعلیٰ ترین قومی مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ اتحاد اور یکجہتی کا وقت ہے۔ 22 اپریل کی رات سے ہی کانگریس واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ملک کے ردعمل میں حکومت کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔’

بی جے پی کے ایکس ہینڈل نے مرکزی حکومت کی پریس ریلیز کو شیئر کیا اور اسے ‘جئے ہند’ کے نعرے کے ساتھ ٹیگ کیا۔ بی جے پی نے اس موقع پر اپنی طاقت دکھانے کے لیے اسٹرائیک کے مناظر اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تقاریر کا ایک ویڈیو شیئر کیا، جس کے ساتھ کیپشن لکھا تھا،’ کہا تھا نہ، چن چن کر ماریں گے!’

بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا، ‘یہ پہلگام کے لیے ہندوستان کا پیغام ہے۔ اگر آپ ہمیں چھیڑیں گے تو ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان کی روح پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہندوستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار اور پرعزم ہے۔ ہم دہشت گردی کے بہتے گھاؤ کو مٹا دیں گے۔’

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شردچندرا پوار) کے ترجمان انیش گوانڈے نے اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہا کہ ‘…ایک ذمہ دار حزب اختلاف کو دکھاوے یا جنگی اشتعال سے بچنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا،’ہم امن کی دعا کرتے ہیں، ہم سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ میں خاص طور پر سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کے لیے دعا کرتا ہوں – جو بغیر کسی خواہش  کے جنگ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔’

شیوسینا (یو بی ٹی) اور آر جے ڈی نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی

شیو سینا (یو بی ٹی) کے رہنما آدتیہ ٹھاکرے نے کہا، ‘دہشت گردی کی تمام شکلوں کو ختم کیا جانا چاہیے… ان پر  اتنی مارپڑنی چاہیے کہ دہشت گردی کو دوبارہ موقع نہ ملے۔ جئے ہند!’

شیو سینا (یو بی ٹی) کی ترجمان پرینکا چترویدی نےحملوں کا جشن منایا۔ انہوں نے کہا، انہوں نے دھرم کے بارے میں پوچھا۔ اب اپنے حرکتوں کا خمیازہ بھگتو۔ ہندوستانی فوج۔’

انہوں نے کہا، ‘پاکستانی شہریوں کو ان کے پاکستانی فوجی جرنلوں کی طرف سے بنائے گئے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے آپ کے گھر میں گھس کر اسے صاف کر دیا۔’

راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا، ‘جئے بھارت! نہ تو دہشت گردی  ہونی چاہیےاور نہ ہی  علیحدگی پسندی! ہمیں اپنے بہادر فوجیوں اور ہندوستانی فوج پر فخر ہے۔’

اسد الدین اویسی نے حملوں کا خیرمقدم کیا

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا، ‘میں پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر دفاعی افواج کی جانب سے کی گئی سرجیکل اسٹرائیکس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پاکستان کے ڈیپ اسٹیٹ کو کڑا سبق سکھایا جانا چاہیے تاکہ پہلگام جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ پاکستان کے دہشت گردی کے  ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کیا جانا چاہیے۔ جئے ہند۔’

دریں اثناکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولت بیورو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے پہلے ہی ‘دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے خلاف’ اٹھائے گئے اقدامات میں حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس نے حکومت پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی اپیل کی۔’

سی پی آئی (ایم) نے کہا، ‘ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پہلگام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے ذمہ دار لوگوں کو حوالے کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ اس کی سرزمین سے کوئی بھی دہشت گرد کیمپ کام نہ کرے۔ حکومت ہند کو عوام کے اتحاد اور ملک کی سالمیت کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔’

سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن واحد پارٹی ہے جس نے ‘کشیدگی کو ختم کرنے اور سفارت کاری’ کا مطالبہ کیا

تاہم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن (سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن) واحد پارٹی ہے جس نے ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ سے بچنے کے لیے کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری’ پر زور دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستانی حکام نے اس آپریشن کو قابل اعتماد انٹلی جنس کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے ایک درست اور تحمل کے ساتھ دیا ہوا جواب قرار دیا ہے، جو ایک اچھی طرح سے منصوبہ بند اور کشیدگی نہ بڑھنےکے ساتھ کیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ آپریشن سیندور کے بعد جموں و کشمیر میں سرحد پار سے فائرنگ اور کئی عام شہریوں کے مارے جانے کی خبریں پہلے سے  ہی آ رہی  ہیں۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کے خطرے کے واضح آثار ہیں۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہیے اور دہشت گردی کو روکنے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام غیر فوجی سفارتی آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے 200 مراکز میں وسیع پیمانے پر ماک ڈرل کا اعلان ‘عوامی بیداری پھیلا کر سیکورٹی کو مضبوط کرنے کی ایک تکنیک’ہے لیکن اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی ڈرل ہندوستان کے اندرونی ماحول کو خراب نہ کریں اور جنگ کے لیے شاونسٹک شور پیدا نہ کریں۔

نیز، اس نے حکومت پاکستان سے دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کی اپیل کی ۔ پارٹی نے کہا، ‘ہم پاکستانی حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام سے دہشت گردی اور جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ آئیے ہم ایک اور بھارت- پاک جنگ کے لیے زوردار نہ کہیں اور دو طرفہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دباؤ بنائیں۔’

Next Article

ٹرول کی منظم مہم میں ہمانشی کی فطری انسانی اخلاقیات کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ہے

ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس  سے خوفزدہ ہندوتوا  گروہ کی جانب سے ان  کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛  وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟

پہلگام حملے میں مارے گئے بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں ان کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام حملے میں مارے گئے بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں ان کی اہلیہ ہمانشی نروال۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام جیسے تشدد کے واقعات پر ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ خصوصی طور پر جب وہ اجتماعی ہو؟ فوری اور طویل مدتی ردعمل؟

پہلگام میں تشدد کرنے والوں نےسوچا ہوگاکہ ہندوستان میں اس پر دو طرح کے ردعمل ہوں گے۔ ایک ہندو ردعمل اور دوسرا مسلمان ردعمل۔ انہوں نے ہندوؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ یہ تشدد مسلمانوں اور کشمیریوں کی طرف سے کر رہے ہیں۔ جسے مارنا ہے وہ ہندو ہی ہے، یہ انہوں نے ٹھنڈے طریقے سےطے کیا۔ فطری طور پر (اور یہی وہ چاہتے تھے) یہ بڑے پیمانے پر نشر بھی ہوا۔

مسلمان قاتلوں نے کشمیر میں باہر سے آئے ہندوستانی ہندوؤں کو قتل کیا؛ کشمیری مسلمانوں کی طرف سے، ہندوؤں کے خلاف، ہندوستانیوں کے خلاف؛ اس تشدد کا یہی مطلب نکالا جائے، یہ  قاتلوں کا مقصد تھا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس تشدد کی اس تشریح کا ہندوستان میں کیا اثر ہوگا۔

لیکن جو ابتدائی رد عمل سامنے آئے، ان سے قاتلوں کے اس مقصد کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں پیداہو گئیں۔ ایک ساتھ دو خبریں آئیں؛ ہندو مرد سیاحوں پر تشددان کا مذہب پوچھ کر کیا گیا۔ اسی وقت مسلمانوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی ہندو مردوں، عورتوں اور بچوں کو بچایا۔ تشدد اور تشددکے درمیان مقامی کشمیریوں کی بے ساختہ جرٲت مندانہ انسانیت کی تصویریں ساتھ ساتھ لوگوں تک پہنچیں۔

اس کے ساتھ سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک اور بات ہوئی۔ جن خواتین کے باپ، شوہر اور رشتہ دار مارے گئے، ان کا پہلا ردعمل بھی فوراً دنیا تک پہنچا۔ اپنے غم اور صدمے کے لمحات میں بھی ان متاثرہ خواتین نے اس قتل عام کی وجہ سےکشمیریوں کے خلاف بولنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ ان کی تعریف کی اور ان  کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے انہیں بچایا، ان کی حفاظت کی اور ان کا خیال رکھا۔ انہوں نے کشمیریوں کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی۔ ان پرکوئی  شک نہیں کیا۔ انہوں نے واضح طور پر دہشت گردوں اور کشمیریوں میں فرق کیا۔

اس سے باہر کے،تشدد سےبراہ راست متاثر نہ ہونے والے ہندوؤں کو تعجب ہوا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو یہ ردعمل فطری  نہیں لگے۔ لیکن ان کا انسانی اثر بھی ہوا؛ قاتل مسلمان رہے ہوں گے، لیکن تمام کشمیری مسلمانوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر مارےجانےوالےشخص کی بیوی اور بیٹی یہ کہہ رہی ہیں تو اس پر غور کرنا ہی پڑے گا۔

یہی نہیں بلکہ پورا کشمیر اس تشدد کے خلاف بے ساختہ سڑکوں پر نکل آیا۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں تھا کہ اس تشدد نے کشمیریوں اور مسلمانوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اپنے غم اور غصے کا اظہار بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کر رہے تھے۔ فوراً ہندوستان بھر کے مسلم مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں نے اس تشدد کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ کشمیر میں سری نگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران تشدد کی مذمت کی گئی، اور ان ہلاکتوں کے خلاف ہندوستان بھر میں نماز جمعہ کے دوران خطبہ پڑھا گیا۔

کشمیری اور مسلمان دونوں کہہ رہے تھے؛ یہ تشدد ہمارے نام پر نہیں کیا جا سکتا، ہم اسے نا منظور کرتے ہیں۔ اسے نہ سننا مشکل تھا۔

محسوس ہوا کہ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہو گئے۔ وہ ہندوستان کی انسانیت کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ہم یہ بھول گئے کہ جس قسم کا ردعمل وہ پیدا کرنا چاہتے تھے اس طرح کے ردعمل کی توقع ایک سیاسی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی تھی۔ دہلی اور کئی ریاستوں میں ان کی حکومت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے جموں و کشمیر پر بھی ان کا کنٹرول ہے۔


بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اسی ردعمل  کی امید تھی جو دہشت گرد چاہتے تھے۔ بلکہ اس طرح کے ردعمل کو بھڑکانے کے لیے انہوں نے اپنی طرف سے پہل کی۔ جلد ہی اس کا پہلا پوسٹر جاری ہوا؛ ‘دھرم پوچھا ، ذات نہیں۔ یاد رکھیں گے۔’ یہ ان ہندوؤں سے بالکل مختلف ردعمل تھا جو براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ وہ اس حقیقت کو جانتے تھے لیکن وہ کشمیریوں اور مسلمانوں کے دکھ، خیر سگالی، ہمدردی اور انسانیت کو یاد رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے لیے یہ یاد رکھنا زیادہ ضروری تھا۔


لیکن بی جے پی انہیں کچھ اور یاد رکھنے کو کہہ رہی تھی۔

بی جے پی ہندوؤں سے کہہ رہی تھی کہ جو یاد رکھنے کی ضرورت ہے  وہ یہ کہ ‘دھرم  پوچھ کر مارا۔’ یہ ایک اجتماعی ہندوستانی ردعمل کے بجائے ایک علیحدہ ہندو ردعمل کو منظم کرنے اور پروپیگنڈہ کرنےکی ہوشیاری تھی۔ ہندوستان کے بڑے میڈیا نے بھی بی جے پی کی طرح ردعمل کو اکسانے کے لیے اسی طرح کی مہم چلائی۔

اس کا اثر ہوا۔ ہندوستان میں پہلے سے موجود مسلم دشمنی اور کشمیر مخالف نفرت اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی تنظیموں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے کشمیریوں پر حملے شروع ہوگئے۔ ان کے خلاف نفرت پر مبنی پروپیگنڈہ تیز ہو گیا۔ گجرات حکومت نے ‘بنگلہ دیشیوں’ کے نام پر مسلمانوں کو سرعام ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ کشمیر میں مشتبہ افراد کے مکانات مسمار کرنے کا عمل شروع ہوا اور کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور بی جے پی مشینری دونوں نے اس تشدد کی فوری سزا کشمیریوں اور مسلمانوں کو دینا شروع کردی۔

جودہشت گرد چاہتے تھے اور جو ان کے پہلے سےبی جے پی پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی سیاست کے ذریعے کرتی آ رہی ہے، اس کا مشاہدہ کیا جانے لگا۔ کشمیری کچھ بھی کرلیں، مسلمان کچھ بھی کرلیں، ان کے خلاف تشدد کیا جائے گا۔ وہ بدستور شک کی زد میں رہیں گے۔ دو چیزیں بیک وقت ہو رہی تھیں۔ ہندوؤں اور ان میں بھی تشدد کے شکار ہندوؤں کے بیانات بی جے پی کے نفرت انگیز پروپیگنڈے اور پہلگام کے بعد کےتشدد کے درمیان بھی نشر ہو رہے تھے۔

بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کو ان کی بیوی ہمانشی نروال کے سامنے قتل کیا گیا۔ اپنے شوہر کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے نکلتے ہوئے ہمانشی نے کہا کہ وہ یقینی طور پر اپنے شوہر اور ہلاک ہونے والے دیگر لوگوں کے لیے انصاف چاہتی ہیں۔ اس کے ذمہ داروں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ لیکن وہ نہیں چاہتی ہیں کہ اس کے بہانے کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد ہو۔

ہمانشی کا یہ بیان آج کےمسلم دشمنی کے زہر آلود ماحول میں غیر متوقع تھا۔ تشدد اور نفرت کا وارجھیل  رہے کشمیریوں اور مسلمانوں کے لیے ایک مرہم کی طرح تھا۔ لیکن اس بیان سے ہندوتوا کے حامی بوکھلا گئے۔


اپنےشدید رنج وغم کی گھڑی میں بھی ایک اکیلی عورت کے اس معتدل  بیان میں طاقت ہے کہ وہ  ہندوؤں کے اندر سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کردے۔ وہ سوچنے کو مجبور ہو جائیں کہ ان کی نفرت کتنی بے معنی ہے۔ یہ کہ اگر وہ اس قتل عام کے بعد مسلمانوں، کشمیریوں پر حملہ کر رہے ہیں تو ان میں اور دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی مذہب کی بنیاد پرہی قتل کر رہے ہیں۔


ہمانشی کے بیان  میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی اس سے خوفزدہ ہندوتوگروہ نے ان پر زبردست حملہ بول دیا ہے۔ اس لیے ان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیے ہر طرف سے ان کے خلاف ہتک آمیزاور مذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہیں بد کردار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یعنی  ہندوؤں کو یہ سمجھانے کی سازش کی جا رہی ہے کہ ہمانشی کی بات نہ سنیں کیونکہ وہ اچھے کردار کی نہیں ہے۔

لیکن اس منظم مہم میں ہمانشی کی فطری انسانی اخلاقیات کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ عام ہندو، جو عام طور پر مسلم مخالف نفرت انگیز پروپیگنڈے سے متاثر ہوجاتا ہے، ہمانشی نروال پر ہونے والے اس حملے سے ذرا حیرت میں ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جس میں وہ ہندوتوا کی غیر انسانی اور تشدد کو اس کے ننگے پن کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا اس پر حملہ آور ہندوتوادیوں کے ساتھ ؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

جموں و کشمیر: پاکستانی حملے میں 10 شہری ہلاک، پانپور میں لڑاکا طیارہ حادثے کا شکار

ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کےٹھکانوں کو نشانہ بنائےجانے کے بعد لائن آف کنٹرول سے متصل جموں کے پونچھ ضلع میں ایک رہائشی علاقے میں پاکستان کی طرف سےفائرنگ کیے جانے کے بعد محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار سمیت کم از کم 10 شہری کی موت ہوگئی اور 45 دیگر زخمی ہوگئے۔

بدھ، 7 مئی 2025 کو راجوری، جموں و کشمیر کے اروان کھان یتر گاؤں میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے پار پاکستانی فورسز کی مبینہ طور پر رات بھر کی بھاری فائرنگ کے بعد لوگ تباہ شدہ املاک کے پاس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بدھ، 7 مئی 2025 کو راجوری، جموں و کشمیر کے اروان کھان یتر گاؤں میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے پار پاکستانی فورسز کی مبینہ طور پر رات بھر کی بھاری فائرنگ کے بعد لوگ تباہ شدہ املاک کے پاس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سری نگر: جموں و کشمیر میں بدھ (7 مئی) کی صبح اس وقت کشیدگی کا مشاہدہ کیا  گیا،  جب دارالحکومت سری نگر اور جموں کے اکھنور کے باہری علاقوں میں دو لڑاکا طیارے حادثے کا شکار ہو گئے۔ پاکستان کی جانب سے کیے گئے حملے میں مرکز کے زیر انتطام علاقہ  کے دو اضلاع کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔

جموں کے پونچھ ضلع میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ایک رہائشی علاقے پر پاکستان کی گولہ باری سے محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار سمیت کم از کم 10 شہری ہلاک اور 45 دیگر زخمی ہو گئے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل بدھ کی صبح ہندوستان نے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں ‘دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے’والے نو مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ فوجی کارروائی کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے دو ہفتے بعد کی گئی، جس میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

فی الحال،حکام نے سری نگر اور جموں میں صرف دو شہری ہوائی اڈوں کو بند کیا ہے، جنہیں مبینہ طور پرہندوستانی فضائیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔وہیں، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد پر فائرنگ کی اطلاعات کے درمیان جموں و کشمیر کے کچھ حصوں میں تعلیمی اداروں کو بدھ کو بند رکھنے کو کہا گیا ہے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ سری نگر اور جنوبی کشمیر کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے بہت سے لوگ منگل کی نصف شب کے قریب ایک زوردار دھماکے سے بیدار ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھماکہ دارالحکومت سے تقریباً 20 کلومیٹر دور پانپور کے وویان علاقے میں ایک لڑاکا طیارہ کےگرنے کے بعد ہوا ۔

لڑاکا طیارہ گرنے کی خبر

پانپور کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھماکے سے قبل آدھی رات کو کچھ لڑاکا طیارے شہر کے اوپر آسمان پر منڈلا رہے تھے۔ یہ شہراونتی پورہ کے ایئر فورس اسٹیشن سے زیادہ دور نہیں ہے۔

ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ ‘اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس نے ہمارے گھر کو ایسے ہلا کر رکھ دیا جیسے کوئی خوفناک زلزلہ آیا ہو۔ آسمان پر بھی ایسی روشنی دیکھی گئی، جیسے دن کا وقت ہو۔ میں نے فوراً اپنے بچوں کو جگایا اور نیچےگراؤنڈ فلور پر چلا گیا۔’

عینی شاہدین کے مطابق، طیارے کا ملبہ وویان کے علاقے میں تقریباً 500 میٹر کے دائرے میں بکھرا ہوا تھا، جسے سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر گھیرے میں لے لیا اور واقعے کی کوریج کے لیے آنے والے درجنوں صحافیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

پانپور کے ایک رہائشی نے بتایا، ‘کچھ ملبہ ایک اسکول کے قریب اور مسجد کے احاطے میں گرا ہے۔ شکر ہے کہ کوئی گھر متاثر نہیں ہوا۔’

وویان میں حادثے کے بعد ایک مقامی رہائشی نے فیس بک پر لائیو اسٹریم کیا، ویڈیو میں اسے یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ریسکیو آپریشن میں فائر فائٹرز کی مدد کر رہا تھا۔ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔

تباہ ہونے والے لڑاکا طیارہ کس کا ہے اور وہ کہاں تیار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں فوراً کچھ پتہ نہیں چل پایا ہے۔ مرکزی حکومت نے پاکستانی لڑاکا طیاروں کو مار گرانے کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، حادثے کی جگہوں کو ہندوستانی  فضائیہ کے اہلکاروں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

شمالی کشمیر کے کپواڑہ میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب لائن آف کنٹرول کے اس پار سے ہونے والی گولہ باری میں کئی رہائشی مکانات کو نقصان پہنچنے کے بعد سوگ کا ماحول ہے۔

اطلاعات کے مطابق، گولیوں کے شیل کرناہ شہر کے رہائشی علاقے میں گرے تاہم کسی جانی و مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

کرناہ میں جائے وقوعہ سے موصولہ ایک ویڈیو میں ایک رہائشی علاقے میں شدید آگ کو دکھایا گیا ہے، جس کے شعلے کم از کم تین سے چار گھروں سے اٹھ رہے ہیں اور فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

واقعے سے متعلق ایک ویڈیو میں ایک شخص کو روتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس کی گائے آگ لگنے سے مر گئی ہے، جبکہ ایک اور مردانہ آواز کیمرہ مین سے واقعے کاویڈیو بنانے کے لیے اصرار کرتا ہے۔

آواز آتی ہے، ‘سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ رپورٹ بناؤ۔’

دی وائر آزادانہ طور پر اس فوٹیج کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

بارہمولہ اور پونچھ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی

بارہمولہ اور پونچھ اضلاع سے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی اطلاع ملی ہیں، جس کے بعد حکام نے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تعلیمی اداروں کو بدھ کو بند رکھنے کو کہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی یو این آئی کے مطابق، ہلاک ہونے والے تین شہریوں کی شناخت محمد عادل، سلیم حسین اور روبی کور کے طور پر کی گئی ہے۔

کشمیر میں بارہمولہ، کپواڑہ اور بانڈی پورہ کے کچھ حصوں میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں، جبکہ جموں ڈویژن میں حکام نے راجوری، پونچھ، کٹھوعہ، جموں اور سانبہ اضلاع کے کچھ حصوں میں تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب کو مسلح افواج کے ذریعے شروع کیے گئے ‘ آپریشن سیندور ‘ کے بعد جموں و کشمیر میں فوج اور بارڈر سیکورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آپریشن سیندور کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کا جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور دیگر ممالک نے نئی دہلی اور اسلام آبادسے تحمل سے کام لینے اور اپنے اختلافات کو سفارتی اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )