گزشتہ دو برسوں کے دوران غزہ پر جاری قتل عام نے جدید تاریخ میں انسانی تباہی کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہزاروں بچوں کی شہادت، براہِ راست نشر ہونے والے قتل عام، دنیا بھر میں سب سے زیادہ معذور بچوں کی تعداد اور اتنے صحافیوں کی ہلاکت کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سمیت تمام جنگوں کا مجموعہ بھی اس کے برابر نہیں آتا۔
فلسطین کے محصور خطہ غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ نے دو سال مکمل کرلیے ہیں۔ 730دنوں میں دو لاکھ ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد اس خطہ پر برسایا گیا، جس سے 77ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
گوکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس چھوٹے سے خطہ میں ہلاکتوں کی تعداد 67,000ہے، مگر چونکہ دس ہزار کے قریب افراد لاپتہ بھی ہیں، بتایا جا تا ہے کہ ان کی لاشیں عمارتوں کے ملبہ کے نیچے دبی ہوں گی۔
ان میں بیس ہزار بچے اور 12,500کے قریب خواتین ہیں۔ میڈیکل اسٹاف و صحافیوں کو بھی بخشا نہیں گیا۔ 1,670میڈیکل اسٹاف کے علاوہ 245 صحافی بھی بمباری سے ہلاک ہوئے۔ نیز 460افراد جن میں 154بچے شامل ہیں، بھکمری کے شکار ہوگئے۔
اقوامِ متحدہ کے آفس فار کوآرڈینیشن آف ہیومنٹرین افیئرز نے 14 اگست تا 23 ستمبر کے دوران سائٹ مینجمنٹ کلسٹر کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 388,400 سے زائد فلسطینی بے دخل ہوئےجن میں اکثریت غزہ سٹی سے فرار ہونے والوں کی تھی۔ اسرائیلی فوج نے کئی بار غزہ کے مکینوں کو جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا۔
غزہ کے نیسیرات کے مغرب میں ایک پھٹے پھٹے خیمے میں عابیر علیوا اپنے دو بچوں کے درمیان بیٹھی ہے۔ عابیر نے اگست میں کیمپ میں پناہ لی تھی، وہ اپریل میں غزہ سٹی میں ایک اسرائیلی حملے میں اپنے شوہر کو کھو چکی ہے اور اب اپنے دو بچوں کی کفالت کے بوجھ تلے ہے۔
عابیر نے فون پر بتایا کہ جنگ کے آغاز پر وہ شجاعیہ محلے سے وسطی غزہ کی طرف فرار ہوئی، پھر چند مہینوں بعد اپنے گھر واپس آئی۔مگر پھر اس کو اپنے محلے سے ہجرت کرنی پڑی۔ مگر اب وہ دوبارہ بے دخلی کا سامنا نہیں کر سکتی۔ اس سب کے باوجود عابیر ایک چھوٹی سی امیدکے سہارے زندہ ہے؛
میں امید کرتی ہوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس جنگ کو روکنے کے لیے قدم اٹھائیں گے۔ ہم مزید تباہی اور تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔ میں صرف اپنے دو بچوں کے ساتھ امن سے جینا چاہتی ہوں۔
دو برسوں کے بعد خوش آئند بات بس اتنی ہے کہ دو سال کے بعد جنگ میں پہلی مرتبہ اسرائیل اور حماس دونوں ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ان کے لیے آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو بیس نکاتی امن فارمولہ پیش کیا ہے، اس نے امیدیں تو جگا دی ہیں، مگر خدشات بھی پیدا کردیے ہیں۔
سب سے پیچیدہ معاملات، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ء، فلسطینی ریاست کا قیام اور مکمل طور پر غزہ کو غیر مسلح کرنا ہے۔ اسرائیل جو1993کے اوسلو اکارڈو سے منہ موڑ سکتا ہے، تو کیا گارنٹی ہے کہ حماس کی تحویل میں اسرائیلی قیدیوں کے رہائی کے بعد وہ مکمل انخلا ء سے انکار کر سکتاہے۔ اسرائیل مرحلہ وار انخلا پر زور دے رہا ہے۔ مگر اس سے قبل اس کے سبھی قیدی رہا ہونے چاہیے۔
اس سال 19جنوری کو جب اسرائیل اور حماس نے 42دن کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا تھا، تو انہی دنوں حماس نے محصور خطہ میں حکومت سے الگ ہونے اور انتظامیہ کو ایک عبوری نمائندہ فلسطینی لیڈرشپ کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس جنگ بندی سے قبل چینی دارالحکومت بیجنگ میں حماس اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے ایک اہم دھڑے الفتح کے لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا تھا۔
دونوں فریق بیجنگ سے ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ آئے تھے اور طے ہوا تھا کہ اسرائیلی جیل میں قید الفتح کے ایک لیڈر مروان برگوتی فلسطین کے دونوں خطوں ویسٹ بینک اور غزہ کی مشترکہ قیادت سنبھالیں گے اور محمود عباس اور حماس کی لیڈرشپ مستعفی ہو جائےگی۔
حماس کی طرف سے رہائی کے لیے قیدیوں کی جو پہلی فہرست اسرائیل کو دی گئی تھی، اس میں مروان برگوتی کا نام پہلے نمبرپر تھا۔ اس دوران ان کی اہلیہ فدوا برگوتی انقرہ، استنبول اور دوحہ کے چکر لگا رہی تھیں۔
ذرائع کے مطابق محمود عباس نے ہی اسرائیلوں کو باور کرایا کہ حماس کی شہہ پر برگوتی کی رہائی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہوگا، جس کے بعد ان کا نام رہا ہونے والے قیدیوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ وہ 2002 سے اسرائیلی جیل میں طویل سزا بھگت رہے ہیں۔
لہذا اس وقت بھی حماس اقتدار سے الگ تو ہوسکتی ہے، مگر غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی انخلا اور فلسطینی ریاست پر کسی پیش رفت کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
ویسے کسی بھی فریق کے لیے صدر ٹرمپ کی تجویز کو مکمل طور پر ردکرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، جو طویل عرصے سے مایوس تھے، حالیہ پیش رفت کو ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔اسی طرح غزہ میں بھی عام لوگ ایک آس لگائے ہوئے ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی امنگوں یا جنگ کے خاتمے کے لیے عرب دنیا کی وسیع تر امیدوں پر پورا نہیں اترتا، لیکن یہ ایک بنیاد ضرور فراہم کرتا ہے جس پر تعمیر ممکن ہے۔
غزہ کے فلسطینی، جو شدید مصائب کا سامنا کر رہے ہیں، اس منصوبے میں کم از کم بمباری میں وقفے کی امید دیکھ رہے ہیں۔
فلسطین کی عرب امریکن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر سانیہ فیصل الحسینی کے مطابق؛
کسی کو بھی ٹرمپ کی اس تجویز کو کسی ‘بریک تھرو’ کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ یہ نہ تو فلسطینی امیدوں پر پوری اترتی ہے اور نہ ہی تباہی کے اس دائرے کے خاتمے کی ضمانت دیتی ہے، مگر اس میں ایسے عناصر ضرور ہیں جنہیں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ اب خود واشنگٹن کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ جنگ ختم ہونی چاہیے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ واشنگٹن میں میٹنگ کے دوران ٹرمپ نے بتایا کہ اسرائیل پبلک ریلیشنز کے فرنٹ پر ناکا م ہو گیا ہے اور وہ مزید سفارتی سطح پر اس کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔
اسی میٹنگ کے دوران انہوں نے نیتن یاہو کی قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثاامیر کی بات کروائی، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نے دوحہ پر حملے کے لیے معذرت ظاہر کی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے باضابطہ ایک حکم نامہ پر دستخط کیے، جس میں قطرکو سیکورٹی گارنٹی دی گئی۔
ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ یرغمالیوں کو جلد از جلد 72 گھنٹے کے اندر رہا کیا جائے، اس دوران اسرائیلی فوجی کارروائیاں معطل رہیں۔ مگر جنگ زدہ علاقوں میں جنگ بندی کی نگرانی کون کرے گا؟ محفوظ گزرگاہ کی ضمانت کون دے گا؟
وضاحت نہ ہونے کی صورت میں معمولی خلاف ورزیاں پورے عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہیں۔حماس نے دہرایا کہ وہ ‘غزہ کی انتظامیہ کو فلسطینی قومی اتفاق رائے پر مبنی ایک آزاد ادارے کے حوالے کرنے کی منظوری’ دیتا ہے، جسے عرب اور اسلامی حلقوں کی حمایت حاصل ہو۔
ٹرمپ کے بتائے گئے بیرونی ‘بورڈ آف پیس’ میں بین الاقوامی شخصیات کے شامل ہونے کو حماس نے سختی سے مسترد کیا۔ حماس کے عہدیدار موسیٰ ابو مرزوق نے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی ممکنہ نامزدگی خاص طور ان کے عراق جنگ میں کردار کی وجہ سے ناقابلِ قبول بتائی۔
تیسرا، ہتھیار ڈالنے کا معاملہ ہے۔ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے میں حماس سمیت دیگر گروپوں کو عسکری طور پر غیر مسلح کرنے اور غزہ کی حکمرانی میں شرکت سے روکا جانا شامل ہے۔ نیتن یاہو اور اُن کے حامی چاہتے ہیں کہ حماس کی عسکری صلاحیت ختم کی جائے۔
مبصرین کے مطابق حماس کے لیے ہتھیار چھوڑ دینا بغیر سیاسی ضمانتوں کے محض سرینڈر کے مترادف ہوگا۔
خامیوں کے باوجود، ٹرمپ اور حماس کے بیانات نے سیاسی نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ ماضی کی کوششیں عدم اعتماد، عدم توازن مطالبات کی چٹانوں پر ٹوٹ چکی ہیں۔
فلسطینی امن کی کوششیں منصوبے یا فنڈز کی کمی کی وجہ سے ناکام نہیں ہوتیں بلکہ اعتماد، معتبر نفاذ اور سیاسی ارادے کی کمی کی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں۔ جب تک یہ لمحہ یہ چیزیں لاتا نہیں، ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ انہی چھوڑ دی گئی اسکیموں کی فہرست میں شامل رہے گا۔
القدس پارلیامانی فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد مکرّم بلاوی کے مطابق خطے کا مسئلہ سات اکتوبر2023سے شروع نہیں ہوا۔ مغربی میڈیا اب اسی دن کو جس دن حماس کے عسکری افراد نے اسرائیلی بستیوں پر حملہ کیا، جنگ کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔ صرف 2023 کے پہلے نو ماہ میں ہی کم از کم 230 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جو 2005 کے بعد سب سے زیادہ تعداد تھی۔ اسی سال کے پہلے نصف میں، کم از کم 1,148 حملوں کی اطلاع ملی جو اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں پر کیں۔
انتہائی دائیں بازو کے گروہ، جو اب نیتن یاہو کی حکومت کے ذریعے مین اسٹریم میں شامل ہو چکے ہیں، نے تقریباً تباہی کو دعوت دی تھی۔
اسرائیلی سفارت کار اپنے عرب ہمسایوں کے ساتھ کسی معاہدے کی توقع تو کر رہے تھے، مگر اس دوران فلسطین پر کسی بھی بات چیت کو مسترد کر تے تھے۔ تل ابیب کی قیادت میں غرور اور برتری کا احساس سرایت کر چکا تھا اور وہ فلسطین کو تنازعہ ماننے سے ہی انکاری تھے۔
جب نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں ‘گریٹر اسرائیل’ کا نقشہ پیش کیا جس میں مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیل کے بحیرہ میں دکھایا گیا، تو صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی۔
تاریخی طور پر اسرائیل صرف اسی وقت امن معاہدوں پر آمادہ ہوا ہے جب وہ دباؤ میں رہتا ہے، طاقتور پوزیشن میں نہیں۔
چند سال قبل نئی دہلی میں ڈیوڈ شلومو روزن، جو سابقہ چیف ریبائی برائے آئرلینڈ اور امریکن جیوش کمیٹی کے عہدیدار ہیں، نے اس کالم نگار کو بتایا کہ 1973 کی جنگ کے بعد کی مایوسی کی فضا نے ہی اسرائیل کو مصر کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ کیونکہ اس جنگ نے اسرائیلی برتری کے تصورات کو تو ڑ دیا تھا۔ ان کے بقول؛
‘ہمارے ناقابلِ شکست ہونے کابھرم ٹوٹ گیا تھا۔ حالانکہ ہم نے جنگ جیتی تھی، مگر ہمیں لگا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ اسی طرح مصریوں کو بھی ایک تلخ جیت کا احساس تھا۔’ اسی طرح سابقہ تاریخی تناظر میں امن معاہدے طے پائے۔
حماس کے ساتھ جنگ نے بھی اسرائیل کی ناقابلِ شکست شبیہ کو جھنجوڑ دیا ہے۔ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے نے اسرائیلی مذہبی قوم پرستوں اسمتروچ اور بن گویر کو بھی دھچکا دیا، جو مغربی کنارے کی ضم کرنے اور غزہ کے دو ملین فلسطینیوں کے اخراج او ر دوبارہ یہودی آبادکاری کا خواب دیکھ رہے تھے۔
ٹرمپ کے امن منصوبہ میں سابق برطانوی وزیر اعظم کو کوئی رول دینا اس کو پیچیدہ بناسکتا ہے۔ انہوں نے عراق کی جنگ میں برطانیہ کو شامل کیا اور غزہ میں عبوری اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر ان کا نام آرہا ہے۔ غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (جی آئی ٹی اے) کے منصوبے میں ایک درجہ بندی دکھائی گئی ہے جس میں بین الاقوامی ارب پتیوں اور کاروباری شخصیات کا ایک بورڈ ہوگا اور اسکے ماتحت ‘غیر جانبدار’ فلسطینی ناظمین ہونگے۔
انتظامیہ اسرائیل، مصر اور امریکہ کے ساتھ کام کرے گی۔ایک دستاویز میں اس بورڈ کے ممکنہ امیدواروں کے طور پر چار نام درج ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فلسطینی نہیں ہے۔ ایک نام سیگرِڈ کاگ ہے، جو اقوامِ متحدہ کی مشرقِ وسطی امن عمل کی خصوصی کوآرڈینیٹر رہ چکی ہیں۔ دیگر نام ‘عالمی سطح کے معروف افراد’ کے طور پر بیان کیے گئے ہیں ان میں مارک روان، نگیب سعویریس اور آری یہ لائٹ اسٹون شامل ہیں۔
اسٹون غزہ ہیومنٹییرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے قیام اور پیش رفت میں اہم کردار رہے ہیں۔
جی ایچ ایف کی سائٹس پر غزہ میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ وہ سابق امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے سینئر مشیر رہ چکے ہیں جب فریڈمین صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں اسرائیل میں امریکی سفیر تھے، اور اب وہ مشرقِ وسطی ایجنڈا کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے قریبی ہیں۔
نگیب سعویریس تقریباً 10 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک مصر کے امیر خاندان سے ہیں۔ن کا بلیئر کے ساتھ دیرینہ رابطہ ہے۔ بلیئر ان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنے قاہرہ آئے تھے۔انہوں نے نے افغانستان کی تعمیر نو میں شرکت بھی کی۔ مارک روان بلومبرگ کے مطابق 10.2 ارب ڈالر کے قریب مالیت کے مالک ہیں۔ 63 سالہ یہ یہودی امریکی ایپولو گلوبل مینجمنٹ کے سی ای او ہیں۔
روان یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے وہارٹن بزنس سکول کے بورڈ ممبر بھی ہیں اور ایک بڑے ڈونر ہیں۔ سیگرڈ کاگ ایک معروف یورپی ٹیکنوکریٹ جو 2023 کے اواخر سے 2025 کے وسط تک اقوام متحدہ کی غزہ کے لیے اعلیٰ انسانی امداد اور تعمیر نو کوآرڈینیٹر رہ چکی ہیں۔ وہ پہلے بیروت، دمشق اور یروشلم میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ رہ چکی ہیں اور ہالینڈ کی ایک لبرل جماعت کی سیاست سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر مکرّم کے مطابق، تکبّر اور استعماری رویہ 7 اکتوبر کے واقعات کی براہِ راست وجہ بنا۔ دہائیوں کی جدوجہد، ناکام مذاکرات، اور جھوٹے وعدوں کے بعد فلسطینیوں کو یقین ہو چلا تھا کہ ان کو جائز حقوق سے دور کر دیا گیا ہے۔’طوفان الاقصیٰ آپریشن’ اسی سیاسی جمود کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران غزہ پر جاری قتلِ عام نے جدید تاریخ میں انسانی تباہی کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہزاروں بچوں کی شہادت، براہِ راست نشر ہونے والے قتلِ عام، دنیا بھر میں سب سے زیادہ معذور بچوں کی تعداد، اور اتنے صحافیوں کی ہلاکت کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سمیت تمام جنگوں کا مجموعہ بھی اس کے برابر نہیں آتا۔
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل اب خود ایک علاقائی اور عالمی بحران بن چکا ہے۔یہ جنگ فلسطینی مسئلے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے؛ اس کے برعکس، اس نے اسرائیل کو دنیا میں پہلے سے زیادہ تنہا کر دیا، اس کی داخلی اورخارجی ساکھ کو مجروح کیا، اور اس کی معیشت و پالیسیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل اپنے اہداف نہ عسکری طور پر حاصل کر سکا، نہ سیاسی طور پر۔ وہ صرف عام شہریوں کے قتل اور غزہ کی تباہی تک محدود رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتوں اور سلامتی کونسل پر دنیا کا اعتماد متزلزل ہوگیا۔
امریکہ میں بھی اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ وہ کب تک اب اسرائیل کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے۔ اسرائیل کو ہر سال امریکہ سے تقریباً 3.8 ارب ڈالر ملتے ہیں جن میں 3.3 ارب ڈالر ملٹری اور 500 ملین ڈالر میزائلوں کے لیے ملتے ہیں۔
یہ امداد اسرائیل کے کل دفاعی بجٹ کا تقریباً 15 تا 20 فیصد بنتی ہے۔اسرائیل کا کل دفاعی بجٹ تقریباً 24 ارب ڈالر ہے، جبکہ اس کا مجموعی قومی بجٹ 160 تا 170 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔اسرائیل کی جی ڈی پی تقریباً 550 ارب ڈالر ہے لیکن اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔
اگر امریکہ امداد بند کر دے تو اچانک 3.8 ارب ڈالر کی کمی سے اسرائیل کے دفاعی بجٹ میں تقریباً 16 فیصد کمی آئے گی۔اسرائیل کو یا تواپنے عوام پر ٹیکس بڑھانا پڑے گا،یا تعلیم، صحت اور فلاحی اسکیموں میں کٹوتی کرنا ہوگی۔
ایک تخمینے کے مطابق، اسرائیل کو یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے تقریباً 1.5 فیصد جی ڈی پی اضافی محصولات پیدا کرنا ہوں گے۔
یہ ممکن تو ہے، مگر عام شہریوں پر مہنگائی اور بجٹ دباؤ بڑھ جائے گا۔اسرائیل کو امریکی ساختہ ہتھیاروں، جیسے ایف-35 طیارے، اپاشےہیلی کاپٹرز، آئرن ڈوم میزائل، اور امریکی پرزوں پر ا انحصار کرنا پڑتا ہے۔
امداد بند ہونے کے بعد، اسے نئے سودوں کے لیے خود ادائیگی کرنی پڑے گی۔امریکی امداد صرف پیسوں کی بات نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی گارنٹی ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور نیٹو جیسے فورمز پر ایک ڈھال کا کردار ادا کرتی ہے۔امداد بند ہونے کا مطلب صرف عسکری خلا نہیں بلکہ سیاسی تنہائی بھی ہو سکتا ہے۔اسرائیلی عوام اور قیادت کے لیے امریکی تعلقات ایک سلامتی کا ستون ہیں۔