ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔
कई इस्लामिक देशों में वक़्फ़ का वजूद नहीं जबकि भारत में वक़्फ़ बोर्ड को क़ानूनी मान्यता प्राप्त है, उसके बाद भी हंगामा क्यों बरपा हुआ है? سمبت پاترا اور کئی دیگر اراکین نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلامی ممالک، خصوصاً ترکیہ، میں وقف کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔راجیہ سبھا میں بھی کئی اراکین نے اس کو دہرایا۔
مگر بھلا ہو بی جے پی صدر جگت پرکاش نڈا کا کہ انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ترکیہ میں وقف کا ادارہ ہے، مگر بتایا کہ 1924میں اس کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔ اب ا ن کو کس طرح بتائیں کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط وقف ترکیہ کا ہی ہوگا۔ لگتا ہے کہ ان کی تقریر کے لیے بھی مواد ریسرچ اور ریفرنس شعبہ سے کسی نے تیار کیا ہوگا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جب سلاطین جنگ جیت کر آتے تھے، تو وہ ایک مسجد تعمیر کر کے اس کے نام جاگیر یا اور کوئی جائیداد وقف کرتے تھے۔ جس سے اس جنگ کے شہدا کے وارثین اور زخمی پلتے تھے۔ یہ بس ایک عبادت گاہ نہیں ہوتی تھی، مگر کمیونٹی سینٹر کے علاوہ تحقیق و تالیف کے مراکز بھی ہوتے تھے۔ ان شہدا کے وارثین کی ان اداروں کے ساتھ ایک رفاقت بھی رہتی تھی اور وہی اس کے نگران کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ترکیہ میں مساجد اب بھی ایک کمیونٹی سینٹر کے بطور کام کرتی ہیں۔ انقرہ میں ہمارے محلہ سے متصل مسجد میں کام کرنے والی خواتین کے لیے کریچ کی سہولیت موجود ہے یعنی وہ اپنے شیر خوار بچے وہاں چھوڑ دیتی ہیں۔ دن میں گھریلو خواتین کے لیےکوکنگ و قرآن و تجوید کی کلاس ہوتی ہے۔ سنیچر اور اتوار کو جب اسکولوں کی چھٹی ہوتی ہے، مساجد میں دن کے وقت بچوں کے لیےقرآن اور اسلامیات کی کلاسز ہوتی ہیں۔ اسی طرح مسجد کے احاطے میں ہی محلہ فیملی ہیلتھ سینٹر ہے، جہاں ہمہ وقت کئی ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔ اس پورے سیٹ اپ کا ذمہ دار مسجد کا امام ہوتا ہے، جو حکومت کا ایک اعلیٰ عہدیدار ہوتا ہے۔ اس کے رتبہ کا انداز ہ مساجد کے مینار سے ہوتا ہے۔ بغیر مینا ر کی مسجد کے امام کا رتبہ کم ہو تا ہے، ایک مینار والی مسجد کے امام کا رتبہ حکومتی ادارہ کے سیکشن آفیسر جتنا ہوتا ہے۔استنبول کی بلیو مسجد کے چھ مینار ہیں۔ ترکیہ کی مذہبی امور یعنی دیانت محکمہ کے سربراہ وہاں خود ہی امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ امام کا تقرر ہی مسابقتی امتحان کے علاوہ اس کی آوازاور خوش گلو ہونے پر منحصر ہوتا ہے۔ مدارس یعنی امام حاطف اسکولوں میں اسی لیے شاید میوزک کو بطور ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ خیر ذکر ترکیہ کے وقف کا ہو رہا تھا۔نڈا صاحب کا کہنا یہاں تک سچ تھا کہ 1924میں ترکیہ میں وقف جائیدادوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا۔ مگران کے علم میں شاید نہیں ہے کہ 2008میں ترکیہ کی پارلیامنٹ نے وقف قانون میں بڑی تبدیلی کرکے وقف جائیدادیں ان کے نگرانوں کو لوٹا دیں۔ جن کے نگراں یا متولی نہیں تھے ان کو وقف جنرل ڈائرکٹوریٹ نے اپنی تحویل میں لیا۔ اسی قانون کا حوالہ دے کر سلطان مہمت ٹرسٹ نے استنبول کی مشہور زمانہ عمارت آیا صوفیہ کی ملکیت پر عدالت میں دعویٰ دائر کیا۔ کیونکہ اس کو بھی سرکاری تحویل میں لےکر مسجد سے میوزم میں تبدیل کیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیاء میں کئی تجزیہ کار اس قضیہ کا موازنہ بابری مسجد کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر اس پر غور کرنا ضروری ہے کہ 1453کے بعد مسیحی فرقہ نے کبھی اس پر دعویٰ نہیں کیا۔ عدالت میں بھی یہ تنازعہ ترکیہ کے محکمہ سیاحت اور سلطان مہمت ٹرسٹ کے درمیان تھا۔ یہ ٹرسٹ مذہبی امور کی وزارت کے تحت کام کرتا ہے۔یعنی حکومت کے دو محکمے ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔ عیسائی اس مقدمہ میں کبھی بطور فریق شامل نہیں تھے۔ استنبول کے پنورما میوزم میں رکھی دستاویزات کے مطابق، اس عمارت کو عثمانی سلطان محمد نے استنبول فتح کرنے کے بعد باضابطہ خریدا تھا اس پھر اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔یعنی 1453سے 1935تک اس کا استعمال بطور مسجد ہوتا تھا۔ عدالت نے ان دستاویزات کی وجہ سے 2020میں سلطان مہمت ٹرسٹ کو اس کا نگران تسلیم کرکے یہ عمارت اس کو لوٹا دی، جس نے اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کردیا۔ ایک دہائی قبل جب ترکیہ اور اسپین کے درمیان تہذیبوں کے اتحاد کے بینر تلے گفت و شنید کا دور چلا تھا، تو بتایا جاتا ہے کہ ترکیہ کی حکومت نے اس عمارت کو مسیحی برادری کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی اور اس کے بدلے مسجد قرطبہ کو مسلمانوں کے سپرد کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آیا صوفیہ آرتھو ڈکس مسیحیوں کا مرکز رہا ہے۔ اسپین میں کیتھولک عیسائیوں کی آبادی ہے۔ اگر آیا صوفیہ دوبارہ گرجا میں تبدیل ہوجاتا، تو خدشہ تھا کہ ویٹیکن کی اہمیت کم جاتی اور آرتھو ڈکس عیسائی جو اب کسی مرکز کے بغیر قلیل تعداد میں ہیں دوبارہ عروج حاصل کرتے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ ویٹیکن کے پادریوں نے اس کے حصول کے لیے منع کردیا۔ ترکیہ میں ر یاستی سرپرستی میں قائم ہونے والے ارسادی اوقاف ریاست کے ذریعے مخصوص سرکاری آمدنی کو عوامی فلاح کے لیے مختص کر کے قائم کیے گئے ہیں۔ ترکیہ کے نمایاں ارسادی اوقاف میں سوشل ایڈ اینڈ سالیڈیرٹی وقف، ماحولیاتی تحفظ وقف، اور ترک معارف فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ رکیہ میں وقف کا اپنا بینک بھی ہے،جس کا نام ہی واکف بینک ہے۔ جو ترکیہ کا دوسرا بڑا بینک ہے۔ 2023میں اس کی آمدن ہی 29بلین لیرا یعنی 70ارب روپے کے لگ بھگ تھی ۔ اس کی نیویارک، بحرین، عراق، قطر، آسٹریا اور جرمنی کے فریکفورٹ اور کولون شہروں میں شاخیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، اگست 2019 تک ترکیہ میں 52000 مضبوط وقف، 5268 نئے وقف، 256 مُلحق وقف، اور 167 اقلیتی وقف رجسٹرڈ تھے۔یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی اس ملک میں اپنے وقف ہیں، جن کا وہ اپنی مرضی سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ وقف کی ایک قسم وہ ہیں جن کے نگراں یا متولی کا 2008 کے بعد کوئی پتہ نہیں چلا۔ اس لیے ان کو وقف جنرل ڈائریکٹوریٹ خود چلاتا ہے۔ ان کا بنیادی ذریعہ آمدن وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والا کرایہ ہوتا ہے۔ یہ آمدنی مختلف فلاحی کاموں پر صرف کی جاتی ہے۔ سال 2008 میں ہی کارپوریٹ وقف یعنی کیش وقف بھی متعارف کرایا گیا۔ یہ نظام در اصل شہریوں کو جائیداد اور مقامی ٹیکس ادا کرنے میں مدد دینے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ یہ وقف عوام سے چندہ اکٹھا کر کے نہ صرف ٹیکس کی ادائیگی میں مدد دیتے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں دیگر فلاحی سرگرمیاں بھی سرانجام دیتے تھے۔ واکف بینک اسی کیش سے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکیہ میں ‘وقف کاتیلم بینک’ بھی موجود ہے، جو ایک اسلامی بینک ہے اور وقف کے جدید مالیاتی نظام کا حصہ ہے۔ انقرہ کے پرانے شہر میں، وقف کا میوزیم بھی ہے۔جس پر حال ہی میں دی وائر میں افروز عالم ساحل کا ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے۔