دیکھنا ہوگا کہ جب روس، یوکرین اور مغربی ممالک کے درمیان ترکیہ ایک ثالث اور مذاکرات کار کی شکل میں کردار ادا کر کے مغرب کی ضرورت بن چکا ہے، تو کیا ایسے وقت میں یورپی ممالک واقعی اس کو 27رکنی طاقتور اقتصادی اور سیاسی یونین کا حصہ بننے میں مدد کریں گے؟
ایک عرصے سے یورپ سے فاصلہ بنا کر مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں اتحادی بنا نے ایک نئے ورلڈ آرڈر کا نقیب بننے کی سعی کرنے کے بعد، ترکیہ نے ایک بار پھر یورپی یونین میں شامل ہونے کی نہ صرف خواہش کا اظہار کیا ہے ، بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات کا بھی آغاز کردیا ہے۔
پچھلے ماہ صدر رجب طیب اردوان نے لتھوانیا کے دارالحکومت ولنیئس میں ناٹو کے سربراہی اجلاس کے دوران ترکیہ کی یورپی یونین کی رکنیت کا ایشو اٹھایا۔چونکہ انہوں نے اس کو سویڈن کے مغرب کے ملٹری اتحاد ناٹو میں شامل ہونے سے نتھی کر دیا تھا، اس لیے نہ صرف امریکہ بلکہ کئی یورپی ممالک نے بھی اس سلسلے میں ایک دہائی سے ٹھپ مذاکرات کے احیاء پر آمادگی ظاہر کی۔
ترکیہ کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے مذاکرات کا سلسلہ اکتوبر 2005میں اردوان کے اقتدار میں آنے کے دو سال بعد شروع ہوئے تھے۔ یہ مذاکرات 2016تک جاری رہے۔ اس دوران ترکیہ کے یورپی یونین میں شامل ہونے کی امید بندھ گئی تھی، اس لیے اس امید پر دنیا بھر سے سرمایہ کاروں نے آکر ترکیہ میں سرمایہ کاری اور اثاثے خریدنے شروع کیے۔ یہ ایک ایسی جادو کی چھڑی تھی، جس نے ترکیہ میں تعمیر و ترقی کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
یہ ترکیہ کی تاریخ کا ایک سنہرا دور ماناجاتا ہے۔ اس دوران سرما یہ کی فراوانی اور یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے کئی شرائط کو عملی جامہ پہناتے ہوئے طاقتور بلدیہ، ورلڈ کلاس شہری ٹرانسپورٹ سسٹم ا ور یورپ کے طرز پر دیگر سروسزوغیرہ کے قیام سے ہی اردوان کو تعمیر و ترقی اور ترکیہ کی تقدیر بدلنے کہ وجہ سے ان کو ابھی تک انتخابات میں مسلسل کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔
مگر 2016کے بعد اردوان کا دل یورپ سے اچاٹ ہونا شروع ہوگیا تھا، کیونکہ جن مزید شرائط پر یورپ اصرار کررہا تھا، ان پر ترکیہ کو اعتراض تھا۔ان میں ایک اور اہم ایشو حقوق انسانی سے متعلق بھی تھا۔ جس پریورپی ممالک نے سخت رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ گو فوجداری قوانین میں ترکیہ نے موت کی سزا کو ختم کرنے اور دیگر اقدامات کرکے پیش رفت حاصل کی تھی، مگر انسانی حقوق کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ہی یورپی پارلیامنٹ نے فروری 2019 میں ترکیہ کے ساتھ الحاق کے مذاکرات کو معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ 2016 میں، یورپی کمیشن نے ایسی ہی وجوہات کی بنا پر الحاق کے مذاکرات کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔
مگر اب جیسا کہ ترکیہ کے یورپی یونین میں الحاق کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں، ترکیہ کے انسانی حقوق اور مساوات کے ادارے یعنی (ایچ آر ای آئی ٹی ) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محرم کلیچ نے راقم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک انسانی حقوق کے ریکارڈ اور احتساب کے نظام کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
انقرہ شہر کے وسط میں اپنے دفتر کے چھٹے فلور پر جدید ترکیہ کے بانی مصطفی کمال اتا ترک کے پورٹریٹ کے نیچے وسیع و عریض میز کے پیچھے بیٹھے کلیچ سے میں نے چھوٹتے ہی پہلا سوال کیا چونکہ وہ ترکیہ میں انسانی حقوق کے پاسبا ن ہیں اور یورپ کے ساتھ مذاکرات میں یہ ایشو خاصا زیر بحث آتا ہے، کیا اس بار ترکیہ مغربی اتحادیوں کو قائل کرواسکیں گے؟
سرخ سفید چہرے اور نفیس سوٹ پہنے کلیچ کا کہنا تھا پچھلے کئی برسوں سے انسانی حقوق اور مساوات کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اس حد تک کہ کئی ماہ قبل ان کی اتھارٹی کواقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز (جیاے این ایچ آر آئی ) کی طرف سے ان کو ایکریڈیٹ ایشن ملا ہے۔
اسی ادرارہ نے حال ہی میں ہندوستان اور روس سمیت کئی دیگر ممالک کی ایکریڈیٹ ایشن کو معطل کر دیا۔ کلیچ جو کہ سابق پروفیسر اور ترکی کی ممتاز یلدرم بیازیت (سلطان بایزید یلدرم) یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ بھی رہے ہیں کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور مساوات کے ایشو، یورپی یونین کے ساتھ بات چیت میں طویل عرصے سے ایک مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا انسانی حقوق اور مساوات کا ادراہ ایچ آر ای آئی ٹی ایک نیم عدالتی اتھارٹی ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے عالمی معیارات کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے نظریاتی، قانون سازی اور عمل درآمد کی سطح پر موثر میکانزم قائم کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کی سطح پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق بہت سے قوانین اور ادارہ جاتی میکانزم قائم کیے گئے ہیں۔ 2016 میں پارلیامانی قانون کے ذریعے قائم کیے گئے اس ادارہ میں گیارہ اراکین ہیں۔ یہ ادارہ انسانی حقوق کے نگران اور ایک مساوات کمیشن دونوں کے طور پر کام کرتا ہے۔یہ معاشرے، نیز سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں ملازمتوں اور دیگر شعبوں میں ہونے والے امتیازی سلوک پر نظر رکھتا ہے۔
وقتاً فوقتاً پانی کے گھونٹ پیتے ہوئے پروفیسر کلیچ کہہ رہے تھے کہ ان کے ادارہ کے پاس تین مینڈیٹ ہیں: انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ، جس میں شکایات کا انتظار کیے بغیر ان کو خود مقدمات کی تفتیش کرنے کا اختیار ہے۔ ان کا دوسرامنڈیٹ مساوات کو یقینی بنایا ہے۔ اس معاملے میں افراد کی طرف سے شکایات موصول ہوتی ہیں اور بطور ایک عدالت وہ ان کی شنوائی کرکے فریقین کوطلب کرتے ہیں۔ قانون کے تحت 15 بنیادوں پر امتیازی سلوک ممنوع ہے۔ ان میں جنس، نسل، رنگ، زبان، مذہب، عقیدہ، فرقہ، سیاسی رائے رکھنا، نسلی اصل، جائیداد، پیدائش، ازدواجی حیثیت، صحت کی حالت، معذوری اور عمر شامل ہیں۔ کوئی بھی شخص جو ان میں سے کسی بھی بنیاد پر امتیازی سلوک محسوس کرتا ہے وہ ازالے کے لیے کمیشن سے بلا معاوضہ رابطہ کر سکتا ہے۔
ان کا ا تیسرا مینڈیٹ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلے میں وہ وقتاً فوقتاً جیلوں، انٹروگیشن سینٹروں، دماغی امراض کے اسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں۔
نہایت ہی سلیقے کے ساتھ کمرے کی ایک پوری دیوار پر مختلف موضوعات پر کتابوں کے شیلف سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کلیچ کا مطالعہ خاصا وسیع ہے۔انہوں نے90کی دہائی کا ابتدائی عرصہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے میں گزارا ہے۔ وہ کئی تعلیمی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے شعبے میں ترکیہ کی ترقی کا ذکر مختلف یورپی رپورٹس میں بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حراست کے دوران تشدد اور ناروا سلوک کو روکنے کے لیے بہت سے طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں اور ان کی تنظیم معلومات حاصل کرنے کے لیے غیر اعلانیہ طور پر قیدیوں کی حالت زار معلوم کرنے کے لیے سکیورٹی اداروں کا دورہ کرتی ہے۔انہوں نے کہا;
ہم باقاعدگی سے ان جگہوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں آزادی سے محروم افراد کو رکھا جاتا ہے، جیسے کہ جیلیں، جلاوطنی کے مراکز، نفسیاتی ہسپتال، سماجی نگہداشت کے مراکز وغیرہ۔
پچھلے سال ان کی ٹیم نے ایسے 63 دورے کیے۔گزشتہ سال انہوں نے 109 شکایات کا ازالہ کیا اور امتیازی سلوک کے 38 کیسز میں ملوث افرد، حکومتی دفاتر اور کارپورٹ اداروں پر بھاری جرمانے عائدکیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے زیادہ تر شکایات معذور افراد کی طرف سے آتی ہیں۔ ”دنیا بھر میں انسانی حقوق کے 130 کے قریب قومی ادارے موجود ہیں۔ لیکن صرف پانچ ادارے ہیں، جن میں جو امتیازی سلوک روا رکھنے والوں کے خلاف ورزی جرمانے عائد کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔جن میں ان کا ادارہ بھی شامل ہے۔
حال ہی میں اسلامو فوبیا اور اس کے نتائج کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر میں انہوں نے دنیا بھر کے 41 قومی انسانی حقوق کے اداروں کو ایک خط لکھا جس میں ان کو بتایا گیا کہ وہ اپنے ممالک میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے رجحان کو ختم کرکے کے سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائیں۔
جب ان سے قومی انسانی حقوق کے اداروں کی اہمیت کے بارے میں پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے ریاستی حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ ان کا ادارہ تارکین وطن کے مسائل کا بھی احاط کرتا ہے۔ خاص طور پر یورپی ریاستوں کی طرف سے جس طرح ان کو بے رحمی سے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے یا سمندر میں ڈوبنے کے لیے ان کو چھوڑا جاتا ہے، وہ اس سلسلے میں کارروائی کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک کیس کا حوالہ دیا جس میں پاکستان، ہندوستان اور دیگر قومیتوں کے 250 پناہ کے متلاشی تارکین وطن جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، ترکیہ کے شہر ازمیر سے یونان جانے والی کشتی پرسوا ر ہوگئے تھے۔ انہوں نے انسانی اسمگلروں کو فی کس تقریباً تین ہزار یورو ادا کیے تھے۔جب وہ یونانی پولیس کی نظروں میں آگئے، تو انہوں نے ان کی کشتی کو پانی میں ڈبونے کی کوشش کی۔ ان کی خوش قسمتی تھی ترک کوسٹ گارڈ نے بھی ان کو دیکھا تھا اور بروقت پہنچ کر ان کی جان بچائی۔
حال ہی میں، یورپی پارلیامنٹ نے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کے لیے ترکیہ کی کوششوں کو سراہا۔ یورپی پارلیامنٹ کے ممبران نے یورپی کمیشن کی طرف سے باہمی طور پر فائدہ مند کسٹم یونین کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی تجویز کی حمایت بھی کی۔
مگر دیکھنا ہے کہ ایسے وقت میں جب روس، یوکرین اور مغربی ممالک کے درمیان ترکیہ ایک ثالث اور مذاکرات کار کی شکل میں کردار ادا کر کے مغرب کی ایک ضرورت بن چکا ہے، کیا ایسے وقت میں یورپی ممالک واقعی اس کو 27رکنی طاقتور اقتصادی اور سیاسی یونین کا حصہ بننے میں مدد دیں گے؟ ت
رکیہ کی گرتی ہوئی معیشت کے لیےیہ ایک بڑا سہارا ہوگا، اور شاید اردوان اس کے ذریعے اقتصادی صورت حال کو دوبارہ پٹری پر لانے اور اپنے سنہری دور کو واپس لانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔جس کے لیے ترکیہ کے عوام نے ان کو ووٹ دےکر تیسری بار صدارتی عہدے پر پہنچا دیا۔