
پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی تھی۔یوں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔

تمام تصویریں، بہ شکریہ: ترک کمیونیکیشن ڈائریکٹوریٹ
ترکیہ کے شہروں خاص طور پر دارالحکومت انقرہ اور عروس البلاد استنبول کی کئی اہم جگہوں پر آ پ کو شیشے کے کیسز میں جلی ہوئی کاریں اور سڑکوں پر گہرے گڑھے نظر آئیں گے۔ یہ 15 جولائی 2016 کی وہ محفوظ نشانیاں ہیں، جب ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی۔
ترکیہ کی جدید تاریخ میں اس دن کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس کو جمہوریت اور قومی اتحاد کے دن کے طور پر تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
ترکیہ کے جمہوری دور کی تاریخ میں چار بار فوج نے مداخلت کرکے سویلین حکومتوں کو برخاست کیا ہے۔ مگر یہ شاید پہلی بار تھا جب رجب طیب ایردوان کی حکومت نے مداخلت کو ناکام بناکر فوج کو ایک سویلین انتظامیہ کے تابع بناکر ہی دم لیا۔
ترک آئین میں فوج کے کردار کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے کی ذمہ دار ہے۔فوج نے پہلی مرتبہ 1960 میں اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے ایک منتخب وزیر اعظم عدنان مندرس کو بے دخل کرکے ان پر مقدمہ چلا کر ایک سال بعد موت کی سزا دے دی۔دیگر ایسی فوجی مداخلتیں 1971، 1980 اور 1997 میں ہوئیں۔
سخت گیر کمالسٹ ہونے کی وجہ سے فوج ایک فرض یہ سمجھتی تھی کہ وہ اتاترک کی اصلاحات، خاص طور پر سیکولرازم، اور مغرب کے ساتھ تعاون کی محافظ ہے۔
مگر ترک تجزیہ کاروں کے مطابق کمالسٹ یا سخت گیر فرانسیسی طرز کے سیکولرازم کے نفاذ کاسہرا دراصل اتا ترک کے بجائے عصمت انونو کے سر جاتا ہے، جوملک کے پہلے وزیر اعظم رہے اور پھر بطور صدر1938 سے 1950 تک برسر اقتدار رہے۔ انہوں نے اپنے نظریہ کو تھوپنے کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام کا خوب استعمال کیا۔جاتے جاتے مگر ان کا احسان یہ رہا کہ انہوں نے ملک میں کثیر جماعتی انتخابات کو منظوری دے دی۔
معروف سرکردہ ترک صحافی مہمت اوز ترک 15 جولائی 2016کو دن بھر کا کام کرنے کے بعد انقرہ کے نواح میں اپنے گھر لوٹے تھے۔ وہ ان دنوں ترکیہ کی نیم سرکاری اور سب سے بڑی نیوز ایجنسی انادولوکے غیر ملکی زبانوں کی سروس کے چیف ایڈیٹر تھے۔
ڈنر کے بعد جب انہوں نے ٹی وی آن کیا، تو دیکھا کہ استنبول میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس کے ایک پل پر سے فوجی ٹینک گزر رہے ہیں۔ ان کی چھٹی حس نے ان کو خبردار کیا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
انہوں نے فون کرکے گاڑی منگوائی اور دوبارہ دفتر کی طرف روانہ ہوگئے۔ انقرہ ابھی تک پرسکون تھا۔ویسے بھی استنبول کے برعکس یہ شہر جلدی سو جاتا ہے۔ فوجی بغاوت کی خبر ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ دفتر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ایجنسی کے دیگر ذمہ داران بھی کوریڈور میں موجود تھے، تو معلوم ہوا کہ فوجی بغاوت شروع ہو چکی ہے۔
وہ یاد کر رہے تھے 36 برس قبل زمانہ طالبعلمی میں اسی طرح کی ایک فوجی بغاوت کے بعد ان کو انڈر گراونڈ اور پھر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ترک یونیورسٹیوں میں بائیں بازو، سخت گیر سیکولر نظام یعنی کمال ازم کے حامیوں اور اسلام پسند اور لبرل جمہوریت کے خواہاں گروپوں میں سخت رسہ کشی ہوتی تھی۔
اوز ترک ان دنوں انقرہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم تھے۔ 1980کی اس فوجی مداخلت کے بعد ان کی زندگی اجیرن بنائی گئی اور ان کو ملک چھوڑ کر تقریباً دس سال تک اپنے احباب و اقارب سے دور کئی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ ان کا اضطراب واجب تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ چند لمحوں کے بعد جیٹ جہازوں کی پرشور اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ انٹلی ایجنسی کے صدر دفتر، صدارتی محل، پارلیامنٹ ہاؤس اور شہر کے مرکز پر بمباری ہو رہی ہے۔استنبول میں واقع فاتح سلطان محمد پل اور باسفورس پل بند کر دیے گئے۔فوجی ہیڈکوارٹر میں بعض افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں چیف آف جنرل اسٹاف حلوصی آقار بھی شامل تھے۔
تقریباً رات 9 بجے باغیوں نے ترک زمینی افواج کے کمانڈر صالح زکی چولاک کو فوجی ہیڈکوارٹر بلایا اور گرفتار کیا۔ترک فضائیہ کے سربراہ عابدین اونال، جو استنبول میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے، کو وہیں سے اٹھا کر اغوا کیا گیا۔
آقار کو بتایا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن کی طرح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انہیں اس موقع پر امریکہ میں موجود د حزمت تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی گئی الیکن جنرل حلوصی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کو ترجیح دی۔اس دوران بیلٹ سے ان کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔انکار پر انہیں آکن جی ایئر بیس منتقل کر دیا گیا۔وہاں دیگر کمانڈروں کو بھی رکھا گیا تھا۔
صدر رجب طیب ایردوان جنوب مغربی ترکی کے شہر مارماریس میں بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک ہوٹل میں تعطیلات گزار رہے تھے۔رات گئے فضا میں تین فوجی ہیلی کاپٹرنمودا رہوئے اور ہوٹل پر بم برسانے لگے۔ اسی دوران چھاتہ بردار فوج کے کمانڈودستے بھی ہوٹل کے پاس اترنے لگے۔
مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ محض بیس منٹ قبل ایردوان ایک ہیلی کاپٹر پر دالامان کے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر کی لائٹس بند کرنے اور نچلی پرواز کرتے ہوئے ریڈار کی پہنچ سے دوررہتے ہوئے ائیر پورٹ پہنچنے کا حکم دیا۔ اس ہوٹل کے پاس اسپیشل فورسز اور باغی فوجیوں میں جھڑ پ بھی ہوئی۔
اوز ترک کے مطابق فرار سے قبل اسی قبل اسی ہوٹل کے صحن میں ایردوان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس فوجی بغاوت کی مذمت کی اور عوام کو سڑکوں پر آنے مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ نشر نہیں ہو پائی۔
لیکن جب وہ تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دالامان کے ایرپورٹ پہنچ کر ایک پرائیوٹ جیٹ میں سوار ہوئے، تو رات 12 بجکر 23 منٹ پر انہوں نے سی این این ترک چینل سے رابطہ کیا، جس نے براہ راست ان کا بیان اور اپیل نشر کی۔ اس کے نشر ہوتے ہی عوام سڑکوں پر امنڈ پڑے۔
پارلیامنٹ اسپیکر نے اسی وقت ہنگامی اجلاس طلب کرکے سبھی ارکین پارلیامنٹ کو ایوان میں پہنچنے کی ہدایت دی۔ٹینکوں نے ترک پارلیامان کے قریب فائرنگ کی اور عمارت کو فضائی حملے میں بھی نشانہ بنایا گیا۔ انقرہ کے مئیر ملیح گوکچیک نے میونسپلٹی کے تمام ٹرکوں، جن میں کچرا اٹھانے والے بھاری بھرکم ٹرک بھی تھے کے ڈرائیوروں کو ہدایت دی کہ ان کو فوجی ہیڈکوارٹر اور بیرکوں کے آس پاس کھڑا کردیں، تاکہ فوجی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ ان کا یہ انوکھا پلان خاصا کار گر ثابت ہوا۔باغیوں کی رفتار سست ہوگئی۔
رات ایک بجے کے آس پاس ایردوان نے سی این این ترک چینل کو فون پر تفصیلی انٹرویو دیا اور عوام سے اپیل کی کہ کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر اوراستنبول کے اتا ترک ایئر پورٹ پر جمع ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ و ہ جلد ہی استنبول ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں۔
ایردوان کا طیارہ دالامان ایئرپورٹ سے رات 11 بج کر 47 منٹ پر روانہ ہوا تھا، اور صبح 2 بج کر 50 منٹ پر اتاترک ایئرپورٹ پر اترا۔بتایا جاتا ہے کہ راستے میں اس کو مار گرانے کی کوشش ہوئی تھی، مگر پائلٹ نے ریڈیو پر اپنے آپ کو ترک فضائیہ کے طیارہ کے طور پر شناخت کروائی۔ ایک امریکی ویب سائٹ نے اس طیارہ کے روٹ کی اطلاع اپنی ویب سائٹ پر دی تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ادارے کسی سطح پر اس بغاوت میں شریک تھے۔
رات 11 بجے سے نصف شب تک انقرہ کے مضافاتی علاقے گولباشی میں پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر اور پولیس ایئر فورس ہیڈکوارٹر پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی۔گولباشی میں واقع تُرک سیٹ کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا۔
رات 11 بج کر 50 منٹ پر فوجیوں نے استنبول کے مرکز تقسیم اسکوائر پر قبضہ کر لیا۔ رات ایک بجے تک ایئرپورٹ کے اندر ٹینک موجود تھے اور وہاں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ان کا ہدف کسی طرح ایردوان کے طیارے کو اترنے نہیں دینا تھا یا فوراً گرفتار کرنا تھا۔ ایروان کے انٹرویو اور عوام کے اژدھام کے باعث اسی دوران فوج نے ایرپورٹ سے انخلاء شروع کردیا۔
مگر انقرہ میں صبح 3 بجے تک فوج نے پارلیامنٹ کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر فائرنگ کر رہا تھا۔ صبح 3 بج کر 12 منٹ پر وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا کہ حکومت نے حالات پر قابو پا لیا ہے، انقرہ پر نو فلائی زون نافذ کر دیا گیا ہے اور جو فوجی طیارے اب بھی پرواز کریں گے، انہیں مار گرایا جائے گا۔
ادھر استنبول پہنچنے کے بعد ایردوان نے ایئرپورٹ کے اندر سے ہی ٹی وی پر خطاب کیا، اس وقت لاکھوں افراد ایئرپورٹ کے باہر جمع تھے۔تقریباً 6 بج کر 30 منٹ پروہ ایرپورٹ سے باہر آئے اور کہا کہ ترکیہ میں حکومت اب صرف بیلٹ بکس سے ہی تبدیل ہوسکتی ہے اور فوج ریاست کو نہیں چلا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک سابق حلیف اور امریکی ریاست پنسلوانیا میں موجود فتح اللہ گولن اور ان کی حز مت یعنی خدمت تحریک پر غیر ملکی شہہ پر اس بغاوت کا الزام لگایا۔
ادھر استنبول کے تقسیم اسکوائر اور باسفورس پل پر باغی فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔یہ شاید واحد مثال ہوگی، جب فوج پولیس اور عوام کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔ صبح 5 بج کر 18 منٹ تک حکومت نے اتاترک ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔
مگر انقرہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے اندر صبح 8 بجے تک بھی جھڑپیں ہورہی تھیں۔ وہاں 700 مسلح فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جبکہ 150 مسلح فوجیوں کو پولیس نے محصور کر دیا۔ یہ اب طے تھا کہ بغاوت کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
جنرل حلوصی آقار کی غیر موجودگی میں استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے سربراہ جنرل امید دوندار کو قائم مقام چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی آکن جی ایئر بیس پر یرغمال بنائے گئے چیف آف اسٹاف آقار کو بھی حکومت کے حامی دستوں نے بازیاب کرا لیا۔اس پوری رات کے آپریشن میں 350افراد ہلاک اوردوہزارکے قریب زخمی ہوگئے۔ انقرہ میں صدارتی محل کے پاس ان کی یاد میں بنائے گئے مینار اور اس کے ساتھ ڈیموکریسی میوزیم میں ان کے نام درج ہیں۔

انقرہ میں 15 جولائی کی یادگار
بتایا جاتا ہے کہ بغاوت کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ باغیوں کی صفوں میں انتشار اور افراتفری اور ایردوان کو حاصل عوامی حمایت تھی۔ اس کے علاوہ ترکیہ کی قومی انٹلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے سربراہ حکان فدان (موجودہ وزیر خارجہ) کو بغاوت کی سن گن مل گئی تھی۔
کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بغاوت کے تانے بانے امریکہ میں بنے گئے تھے، اس لیے روسی خفیہ ایجنسیوں کو اس کی بھنک مل گئی تھی اور انہوں نے اس کو ترک ذرائع کے ساتھ شیئر کر دیا تھا۔
ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے ساتھ پچھلے تیس سالوں سے وابستہ معروف صحافی فرقان حمید کے مطابق اس اطلاع کے ملنے کے فوراً بعد فدان نے جنرل آقار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ملنے کی اطلاع دی اور وقت ضائع کیے بغیر مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ وہاں بری فوج کے سربراہ جنرل صالح ذکی چولاک بھی موجود تھے۔جنہوں نے آرمی ہی کے چیف آف اسٹاف، جنرل اِحسان اُیار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے آرمی ایویشن اسکول جانے اور حالات کا خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے۔
حمید کا کہنا ہے کہ فوج کے جتھے جس نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا تھا میں صدر کے اے ڈی سی کے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان کے اے ڈی سی بھی شامل تھے۔ چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس میں انٹلی جنس سروس کے سربراہ کی آمد نے باغیوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی، جس پر انہوں نے رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے رات دس بجے ہی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے علاوہ بغاوت کے اہم منتظمین میں سے ایک جنرل سیمیح ترزی کو آغاز پر ہی ایک سارجنٹ میجر عمر خالص دمیر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس واقعے نے باغیوں کی کمان اور ان کے حوصلے کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کی کارروائیاں انتشار کا شکار ہو گئیں۔
ان دونوں واقعات سے بغاوت بے ربط اور غیر مربوط ہوگئی۔ باغیوں نے جن سپاہیوں کو متحرک کیا تھا، وہ مشن کی اصل حقیقت سے ناواقف تھے اور بعد میں بددل ہو گئے۔ان میں سے کئی نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔
بتایا جاتا ہے کہ استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے کمانڈر جنرل امید دوندار نے خود ایردوان کو بغاوت سے خبردار کیا اور قائل کیا کہ وہ ہوٹل چھوڑ دیں اور ان کو استنبول پہنچانے میں مدد دی۔
خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے اپنی اینٹی ایئرکرافٹ توپیں بھی متحرک کر دیں تھیں جن کی موجودگی سے باغی لاعلم تھے، اور یہ باغیوں کے طیاروں اور کمانڈو ٹیموں کے لیے رکاوٹ بن گئیں۔ایک اسپیشل فورسز یونٹ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے صدر کو قتل یا گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بیس منٹ کی دیری سے وہاں پہنچے، تب تک ایردوان وہاں سے نکل چکے تھے۔
مصنف نونہال سنگھ اپنی کتاب سیزنگ پاور: دی اسٹریٹجک لاجک آف ملٹری کوپس میں تحریر کرتے ہیں کہ اس بغاوت کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ باغی میڈیا پر کنٹرول حاصل نہ کر سکے اور اپنی مرضی کا بیانیہ ترتیب نہ دے سکے۔
کامیاب بغاوتوں میں لازمی ہوتا ہے کہ باغی ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ حاصل کریں۔اس طرح چھوٹے باغی گروہ بھی خود کو مکمل طور پر فاتح ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔یوں وہ عوام، غیر جانبدار اور حتیٰ کہ وفادار فوجیوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ باغیوں کی حمایت کریں یا کم از کم مزاحمت نہ کریں۔
اس کے علاوہ باغی ترک سیٹ، جو ترکی کی مرکزی کیبل اور سیٹلائٹ مواصلاتی کمپنی تھی اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور موبائل فون کے نیٹ ورک کو کنٹڑول نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے ایردوان کو فیس ٹائم کال کے ذریعے عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور وہ ٹی وی پر براہ راست بات کر سکے۔
اوز ترک کے مطابق باغی گروپ نے ان کی نیوز ایجنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ رات گئے فیکس آیا کہ موجودہ انتظامیہ کو برخاست کیا گیا ہے اور نئی انتظامیہ نیوز ایجنسی کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر نئی انتظامیہ نے اپنی شکل ہی نہیں دکھائی۔ اس لیے انہوں نے اپنے نیوز آپریشن جاری رکھے اور ایردوان اور دیگر لیڈروں کے بیانات جاری کرتے رہے۔
اس بغاوت میں امریکی ادراوں کے تانے بانے بعد میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ نومبر 2017 کے اوائل میں ترک حکام نے ہنری جے بارکی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا، جو وُڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے مشرقِ وسطیٰ پروگرام کے سابق ڈائریکٹر تھے۔
حکام کا کہنا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، اور بغاوت کے دوران استنبول میں موجود تھے اور اس کے اہم منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔
اسی طرح استنبول کے پراسیکیوٹر آفس نے گراہم ای فلر کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔جو ایک امریکی مصنف اور اسلامی انتہا پسندی کے ماہر سیاسی تجزیہ کار ہیں، جنہوں نے سی آئی اے میں طویل مدت تک خدمات انجام دیں اور امریکہ کی نیشنل انٹلی جنس کونسل کے نائب سربراہ کے طور پر بھی کام کیا۔
پراسیکیوٹر آفس کے مطابق فلر نے بغاوت کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ ترک حکام کا خیال ہے کہ انہوں نے بغاوت سے پہلے اور بعد میں فلر کی ترکیہ میں موجودگی کا سراغ لگایا تھا۔
ویسے تو مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ اور شہری آزاد ی کے نام پر خاصی رقوم خرچ کرتی ہیں اور مختلف ممالک میں ان تحریکوں کی پشت پناہی بھی کرتی ہیں، مگر جب یہ جمہوریت ان کے اقدار سے زیادہ ان کے مفاد پر پوری نہیں اترتی ہے تو جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے کی سازشیں کرکے آمروں کو تخت پر بٹھانے میں مدد کردیتی ہیں۔
عدنان مندرس نے پہلی بار کثیر جماعتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے 1950 سے 1960 تک ترکیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔21 مئی 1960 کو تقریباً ایک ہزار افراد، جن میں ملٹری اکیڈمی کے طلبا اور افسران شامل تھے، نے حکومت کے خلاف انقرہ میں خاموش مارچ کیا، جس کی بنا پر ان کو معزول کر دیا گیا اور پھر 17 ستمبر 1961 کو 62برس کی عمر میں ان کو امرالی جزیرے پر پھانسی دی گئی۔اس کا نام بدل کر اب ڈیموکریسی جزیرہ رکھا گیا ہے۔
ان کا قصور تھا کہ اس نے شخصی آزادیاں بحال کرکے مساجد اور دینی مدارس دوبارہ کھولنے کے احکامات دئے تھے، قانون سازی کرکے اذان، عربی میں دینے کی اجازت دی تھی۔
سال 1950 کے انتخابات میں عدنان بیگ کی ڈیموکریٹ پارٹی نے نعرہ دیا تھا؛ ”بس! اب عوام کی آواز سنی جائے!“اور اب وہ اس نعرے کوعملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔
انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں میں ہی تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسا آزاد پریس وجود میں آگیا تھا، جو ٹائم میگزین کے الفاظ میں”طوروس کی پہاڑیوں سے آنے والی ہوا کی طرح آزاد“ تھا۔ ان سبھی اقدامات کو سخت گیر سیکولرازم کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا گیا۔
اسی طرح ہمسایہ ملک ایران میں 1953 میں مقبول لیڈر محمد مصدق کی حکومت کو ایک بغاوت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا، جس میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی (ایم آئی 6) اور امریکہ کی سی آئی اے کا کردار تھا۔مصدق پر بعد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا، انہیں تین برس کے لیے قید کی سزا دی گئی، اور پھر وہ اپنی وفات تک نظر بند رہے۔انہیں ان کے اپنے گھر میں ہی دفنایا گیا۔
خیر ترکیہ میں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔15,000 تعلیمی شعبے کے ملازمین کو بھی معطل کر دیا گیا۔21,000 نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے کیونکہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ گولن کے وفادار تھے۔
تقریباً 160,000 سے زائد افراد کو ان کی نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ ان پر گولن سے روابط کا الزام تھا۔اس بغاوت کے بعد بتدریج حکومتی معاملات میں فوجی مداخلت ختم کر دی گئی۔ آئینی عدالت میں جہاں فوجی جنرل کی بھی نشست ہوتی تھی، کو ختم کردیا گیا۔جس کی وجہ سے ترکیہ کی تاریخ میں اتا ترک کے بعد شاید ایردوان ہی واحد ایسے سویلین حکمران رہے ہوں گے، جنہوں نے طاقت کے سبھی اداروں اور مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔