خیر مظفرپور کا واقعہ تو اب حکومت اور انتظامیہ کی نظر میں ہے اور اس پر کارروائی بھی ہوتی دکھ رہی ہے، لیکن ٹی آئی ایس ایس کی جس رپورٹ پر یہ ساری معلومات سامنے آئی تھی اس میں 14 دوسرے بال گریہہ کے اوپر بھی انگلی اٹھائی گئی تھی۔
کچھ مہینے پہلے بہار حکومت کی پہل پر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس یا ٹس) نے بہار کے بال گریہہ کا ایک سوشل آڈٹ کیا تھا۔ ٹی آئی ایس ایس کی ‘ کوشش ‘ یونٹ نے بہار کے 38 ضلعوں میں گھومکر تقریباً 110 بال گریہہ کی آڈٹ رپورٹ 27 اپریل 2018 کو محکمہ سماجی فلاح و بہبود کو سونپی تھی۔ ‘ کوشش ‘ خصوصاً : شہری غریبی کے اوپر کام کرتی ہے۔ٹیم میں کل 8 ممبر تھے، 5 مرد اور 3 خواتین۔ بہار محکمہ سماجی فلاح و بہبودکے چیف سکریٹری اتل پرساد کے مطابق ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا-‘ بہتر ‘، ‘ انتظامی لاپرواہی ‘ اور ‘ مجرمانہ لاپرواہی ‘۔ مظفرپور کی’سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی’ مجرمانہ لاپرواہی کے زمرہ میں پائی گئی تھی۔
‘ کوشش ‘ کی یہ رپورٹ 26 مئی کو محکمہ سماجی فلاح و بہبود نے اپنے تمام علاقائی اہلکاروں کو بلاکر ان سے شیئر کی۔محکمہ نے افسروں کو فوراً کارروائی کا حکم دیا۔ اس کی بنیاد پر پولیس نے پہلی ایف آئی آر 31 مئی کو مظفرپور کے ‘ سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی ‘ پر جوینائل جسٹس ایکٹ اور پاکسو ایکٹ کے تحت درج کی۔ پولیس نے 3 جون کو اس ادارہ سے منسلک برجیش ٹھاکر، کرن کماری، مینو دیوی، منجو دیوی، اندو کماری، چندہ دیوی، نہا کماری اور ہیما مسیح کو گرفتار کر کےجیل بھیج دیا۔ پولیس نے اس بال گریہہ میں رکھی گئی 44 میں سے 42 لڑکیوں کو پٹنہ، مدھوبنی اور موکاما کے مختلف بالیکاگریہہ میں منتقل کر دیاہے۔ کوشش یونٹ کے ممبروں کے مطابق، جون میں ہی پٹنہ پی ایم سی ایچ نے میڈیکل جانچ میں پایا تھا کہ 42 میں سے 29 لڑکیوں کے ساتھ ریپ ہوا تھا۔
سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی میں رہنے والی کچھ لڑکیوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ ایک لڑکی کو وہاں کے ملازمین نے بات نہ ماننے پر پیٹ پیٹکر مار ڈالا تھا۔ بعد میں اس کو بالیکاگریہہ کے احاطے میں ہی دفنا دیا گیا۔ سوموار 23 جولائی کو مظفرپور پولیس بالیکاگریہہ کی کھدائی کرنے پہنچی۔ تب معاملے نے طول پکڑ لیا۔ اسمبلی میں حزب مخالف کے رہنما تیجسوی یادو نے یہ معاملہ ایوان میں اٹھایا۔ اس کے بعد ملک بھرکے میڈیا کی نظریں مظفرپور کی طرف مڑ گئیں۔ حالانکہ فی الحال وزیراعلیٰ یا نائب وزیر اعلیٰ نے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن کچھ میڈیا رپورٹ کے مطابق بہار حکومت نے جمعرات کو اس معاملے کی سی بی آئی جانچکا حکم جاری کیا ہے۔
لیکن یہ معاملہ صرف مظفرپور تک محدود نہیں ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی اسی رپورٹ میں بہار کے 14 اور شیلٹر ہومس میں استحصال کی بات سامنے آئی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ نہ میڈیا کی نظر گئی نہ ہی انتظامیہ نے مستعدی سے ابتک کارروائی کی ہے۔
نوبھارت ٹائمس کی خبر کے مطابق، مظفرپور بالیکا سنرکشن گریہہ کے افسر روی کمار روشن کی بیوی شیبا کماری سنگھ نے وزیر سماجی فلاح و بہبود منجو ورما کے شوہر پر شک کا اظہار کیا ہے۔ شیبا کا الزام ہے کہ منجو ورما کے شوہر چندریشور ورما اکثر بالیکاگریہہ آتے رہتے تھے۔ جب وہ آتے تھے تو بالیکا سنرکشن گریہہ کے تمام افسروں کو اوپر کی منزل خالی کروا کر نیچے بھیج دیا جاتا تھا۔
خیر مظفرپور کا واقعہ تو اب حکومت اور انتظامیہ کی نظر میں ہے اور اس پر کارروائی بھی ہوتی دکھ رہی ہے، لیکن ٹی آئی ایس ایس کی جس رپورٹ پر یہ ساری معلومات سامنے آئی تھی اس میں 14 دوسرے بال گریہہ کے اوپر بھی انگلی اٹھائی گئی تھی۔ ٹی آئی ایس ایس کے محققین نے رپورٹ کا یہ حصہ نیوزلانڈری کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ یہاں ہم ان تمام اداروں کے نام اور اس پر دی گئی سفارشات دے رہے ہیں۔ بہار کے محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے ڈائریکٹر راج کمار سے جب نیوزلانڈری نے جاننا چاہا کہ باقی 14 اداروں پر کارروائی کا کیا اسٹیٹس ہے تو وہ ایک دوسرا ہی درد بیان کرنے لگے۔
ان کا غصہ میڈیا پر تھا۔ ان کا کہنا تھا، ” بہار حکومت کی تعریف کی جانی چاہیے جس نے خود ہی ٹی آئی ایس ایس سے سوشل آڈٹ کروایا۔ اس کے بعد ہی یہ ساری جانکاری سامنے آئی۔ پر میڈیا یہ بات کسی کو نہیں بتا رہا ہے۔ “
1۔ سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی، مظفرپور (بالیکاگریہہ)
یہ واحد بالیکاگریہہ ہے جہاں آڈٹ رپورٹ کے بعد انتظامیہ حرکت میں آیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی میں بچیوں کے ساتھ سنگین جنسی استحصال اور تشدد کی شکایتیں ہیں۔ لڑکیوں کی کسی بھی کھلی جگہ میں آمد ورفت پر پابندی تھی اور وہ صرف رات کے کھانے کے لئے کمرے سے باہر نکالی جاتی تھیں۔
2۔ نردیش، موتیہاری (بال گریہہ)
‘ نردیش ‘ موتیہاری میں واقع بال گر یہہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق، یہاں تمام بچوں کے ساتھ مارپیٹ ہوتی ہے۔ مارپیٹ کا خاص پیٹرن ہے، اگر ایک بھی بچہ شرارت کرتا ہے تو سبھی کی پٹائی ہوتی ہے۔ بچوں کے مطابق، بدمعاشی کرنا، بھاگنے کی کوشش کرنا، آپس میں لڑائی کرنے پر بال گریہہ کا ملازم تمام بچوں کی پٹائی کرتا ہے۔ اپنی رپورٹ میں کوشش کہتا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال اور تشدد ہو رہا ہے، جس پر بلاتاخیر کارروائی اور تفصیلی تفتیش کی ضرورت ہے۔
3۔ روپم پرگتی سماج سمیتی ، بھاگل پور (بال گریہہ )
بھاگل پور کے اس بال گریہہ این جی او کے سکریٹری پر رپورٹ میں سنگین سوال اٹھائے گئے۔ادارے کا ایک ملازم جو بچوں کی حمایت میں تھا، اس کو سکریٹری کے ذریعے پریشان کیا جاتا تھا۔ آڈٹ ٹیم نے ادارے میں لگی شکایت پیٹی کی جانچ کی اور اس میں آر ٹی او ریکھا کے خلاف کئی شکایتیں ملیں۔ بچوں نے تشدد کی کئی واردات کا ذکر تحریری شکایتوں میں کیا تھا۔ بتایا گیا کہ ریکھا بچوں کے ساتھ جسمانی تشدد اور گالی گلوج کرتی ہے۔ ادارہ آڈٹ ٹیم کو شکایت پیٹی کی چابی نہیں دینا چاہ رہا تھا۔ انہوں نے چابی کھو جانے کا بہانہ بنایا۔
4۔ پناہ، مونگیر (بال گریہہ)
مونگیر کے پناہ بال گریہہ کی اپنی کوئی عمارت نہیں ہے۔ یہ ایک بیرک جیسے ڈھانچے کے اندر چلتی ہے۔ پناہ کا انسپکٹر بال گریہہ کے کیمپس میں ہی رہتا ہے۔ وہ بچوں سے صفائی اور کھانا بنوانے کا کام کرواتا ہے۔ بچوں کے منع کرنے پر وہ بچوں کو مارتا اور پیٹتا ہے۔ایک بچہ جو انسپکٹرکے لئے کھانا بناتا ہے، اس نے اپنے رخسار پر تقریباً 3 انچ لمبا نشان دکھایا۔ یہ نشان مبینہ طور پر انسپکٹر کی پٹائی کا تھا۔ چوٹ کی وجہ سے اس کو اب بولنے اور سننے میں دقت ہوتی ہے۔
ایک دوسرا بچہ جس کی عمر تقریباً 7 سال ہے، وہ بھی سننے کی پریشانی میں مبتلا ہے۔ بچے نے آڈٹ ٹیم سے انسپکٹر کی شکایت میں بتایا کہ انسپکٹر نے اس کے سننے کی مشین چھین لی ہے۔ آڈٹ ٹیم نے اس کی مشین واپس کروائی۔
5۔ داؤدنگر آرگنائزیشن فار رورل ڈیولپمنٹ (ڈی او آر ڈی)، گیا (بال گریہہ)
یہ ادارہ کسی قید خانہ کی طرح اور استحصالی ماحول میں چل رہا ہے۔ لڑکوں نے آڈٹ ٹیم کو بتایا کہ خاتون ملازم لڑکوں سے کاغذ پر بیہودہ پیغام لکھواتی ہیں اور دوسری خاتون ملازمین کو دینے کو مجبور کرتی ہیں۔ بچوں نے پٹائی کی بات قبول کی ہے۔آڈٹ ٹیم نے شک ظاہر کیا ہے، یہاں ملازم بچوں کا دوسرے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔
6۔ ناری گنجن،پٹنہ، آر وی ای ایس کے، مدھوبنی، گیان بھارتی، کیمور (ایڈاپشن ایجنسی)
یہ تینوں ہی ادارےخستہ حالت میں چل رہے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں اور بچوں کے تناسب میں کیئرٹیکرس کی تعداد بےحد کم ہے۔ تینوں ہی جگہ گندی تھی۔ آڈٹ ٹیم نے بچوں کو بھوکا اور ناراض پایا۔ ملازمین نے شکایت کی کہ ان کو لمبے وقت سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔
7۔ آبزرویشن ہوم، ارریہ
یہ سیدھے طور پر حکومت کے ذریعےچلایا جا رہا بال گریہہ ہے۔ لڑکوں کی شکایت ہے کہ یہاں بہار پولیس کا ایک گارڈ لڑکوں کے ساتھ ‘ سنگین ‘ مارپیٹ کرتا ہے۔ ایک بچہ نے آڈٹ ٹیم کو سینہ پر چوٹ کا نشان دکھایا۔ دیکھنے سے ایسا معلوم ہوا کہ اس کے سینہ کو زور سے دبایا گیا تھا، جس کی وجہ سے سینہ میں سوجن بھی تھی۔
غور طلب ہے کہ ارریہ میں واقع اس آبزرویشن ہوم میں تشدد کی معلومات انسپکٹرکو تھی۔ چونکہ گارڈ کی تقرری بہار پولیس نے کی تھی، انسپکٹر نے کارروائی کی بات پر بےچارگی کااظہار کیا۔ بچوں کے من میں گارڈ کے متعلق غصہ تھا۔ ایک بچہ نے آڈٹ ٹیم سے کہا، ” اس جگہ کا نام سدھار گریہہ سے بدلکر بگاڑ گریہہ کر دینا چاہیے۔ “
8۔ انسٹی ٹیوٹ آف کھادی اگریکلچر اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (آئی کے آر ڈی)، پٹنہ (مہیلا الپ آواس گریہہ)
لڑکیوں نے یہاں تشدد کی شکایت کی ہے۔ کئی گمشدہ لڑکیوں کو یہاں رکھا گیا ہے۔ کچھ لڑکیوں کے پاس اپنے گھروالوں کے نمبر تھے لیکن ادارہ کے ملازم ان کو ماں باپ سے رابطہ کرنے نہیں دے رہے۔ گزشتہ سال ایک لڑکی نے روز مرہ کے تشدد سے پریشان ہوکر خودکشی کر لی تھی۔ ظلم و زیادتی کی شکار ایک لڑکی اپنا دماغی توازن کھو چکی ہے۔ لڑکیوں کے پاس کپڑوں اور دوائیوں کی کمی ہے۔ مجموعی طور پر ان کی حالت بدتر ہے۔
9۔ سکھی، موتیہاری، مہیلا الپ آواس گریہہ
یہاں دماغی بیماری سے متاثر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جسمانی تشدد کی بات سامنے آئی ہے۔ تشدد کے تمام الزام کاؤنسلر پر ہیں۔ لڑکیوں نے سینیٹری پیڈ نہ ملنے کی شکایت کی ہے۔ یہاں بھی رہنے کا ماحول ٹھیک نہیں ہے اور فوراً کارروائی کی ضرورت ہے۔
10۔ نوویلٹی ویلفیئر سوسائٹی، مہیلا الپ آواس گریہہ، مونگیر
ادارہ نے عمارت کا ایک حصہ کسی فیملی کو رینٹ پر دے دیا ہے اور اس سے 10000 روپے فی ماہ کا کرایہ وصول رہا ہے۔ لڑکیوں نے کچھ زیادہ نہیں بتایا، صرف اتنا کہاکہ باتھ روم میں اندر کی کنڈی نہیں ہے۔ آڈٹ ٹیم نے ادارے کا ایک بند کمرہ کھلوایا اور اس میں سے ایک ذہنی طور پر بیمار خاتون کو باہر نکالا۔ وہ خاتون آڈٹ ٹیم کے ممبر کو پکڑکر رونے لگی۔
11۔ مہیلا چیتنا وکاس منڈل، مہیلا الپ آواس گریہہ، مدھے پورہ
آڈٹ ٹیم نے مہیلا چیتنا وکاس منڈل کو خستہ حال میں پایا۔ ایک لڑکی نے شکایت میں کہا، اس کو سڑک سے زبردستی اٹھاکر لایا گیا ہے اور اس کو فیملی سے رابطہ کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ آڈٹ ٹیم لڑکی کے کیس کے بارے میں زیادہ معلومات اکٹھا کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس وقت ادارے میں باورچی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ باورچی بہت ڈرا ہوا تھا۔ لڑکیوں کے پاس سونے کے لئے چٹائی اور دری نہیں تھی۔ وہ زمین پر سوتی ہیں۔
12۔ گرام سوراج سیوا سنستھان، مہیلا الپ آواس گریہہ، کیمور
لڑکیوں نے جنسی استحصال کی شکایت کی ہے۔ سیکورٹی گارڈ جنسی استحصال میں شامل رہا ہے۔ لڑکیوں اور خواتین نے کہا، گارڈ بھدی بھدی باتیں کرتا ہے اور اس کا لڑکیوں سے سلوک بھی غیر مناسب ہے۔ چونکہ گارڈ ہی ادارہ کے سارے کام کاج کی دیکھ ریکھ کرتا ہے، وہ لڑکیوں پر حکومت کرتا ہے۔
13۔ سیوا کٹیر، مظفرپور
مظفرپور کا یہ سیوا کٹیر اوم سائی فاؤنڈیشن کے ذریعے چلتا ہے۔ لڑکیوں نے گالی گلوج اور تشدد کی شکایتں کی ہیں۔ ان لڑکیوں کو کام کا حوالہ دےکر یہاں لایا گیا تھا۔ آڈٹ ٹیم کو ادارہ سے جڑے دستاویز نہیں ملے کیونکہ ادارہ کے ملازم نے الماری کی چابی نہیں ہونے کی بات کہی۔ الماری کی چابی دوسرے ملازم کے پاس تھی جو آڈٹ کے دن چھٹی پر تھا۔
14۔ سیوا کٹیر، گیا
میٹا بددھا ٹرسٹ، گیا میں واقع سیوا کٹیر کو چلاتا ہے۔ یہ وردھاآشرم ہے۔ آڈٹ ٹیم نے سیوا کٹیرکے لوگوں کو بہت دبلا پتلا پایا۔ لوگوں سے بات چیت کرتے وقت آڈٹ ٹیم نے ادارہ کے ممبروں کو اشارہ کرتے دیکھا۔ بہت ہی سرکاری طریقے سے ادارہ چلایا جا رہا تھا۔ یہاں ذہنی طور پر مریض لوگوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔
مقامی اخبار پربھات خبر کے مطابق دسمبر 2015 میں سجاتا بائی پاس کے باشندوں نے سیوا کٹیر کے منتظمین کے خلاف شکایت کی تھی۔ گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ سیوا کٹیر کے ممبر جبراً فقیروں کو پکڑ لاتے ہیں اور زبردستی ان کا علاج کروایا جاتا ہے۔
15۔ کوشل کٹیر، پٹنہ
یہ ادارہ ڈان باسکو ٹیک سوسائٹی چلاتا ہے۔ یہاں عورت اور مرد دونوں کے ساتھ گالی گلوج کی جاتی ہے۔ بہت سختی کے ساتھ ان کو الگ رکھا جاتا ہے۔ وہ کلاس ایک ساتھ اٹینڈ کرتے ہیں لیکن آپس میں بات چیت کرنے کی ممانعت ہے۔ ان کو کھلی جگہ میں بھی جانے نہیں دیا جاتا۔
26 مئی، 2018 کو ہی محکمہ سماجی فلاح و بہبود نے اپنے افسروں کو رپورٹ میں قصوروار پائے گئے تمام بالگریہہ پر مستعدی سے کارروائی کا حکم دیا تھا۔ مظفرپور کی سیوا سنکلپ ایو م وکاس سمیتی پر کارروائی کی خبریں سرخیوں میں ہے لیکن باقی جگہوں پر کیا ہو رہا ہے، اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ۔
ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں پٹنہ کی ناری گنجن اور انسٹی ٹیوٹ آف کھادی ایگریکلچر اینڈ رورل ڈیولپمینٹ سنگین گڑبڑی کے ملزم پائے گئے ہیں۔ جب نیوزلانڈری نے پٹنہ کے کلکٹر سے کارروائی کے بارے میں پوچھا، کلکٹر نے معاملے سے ناواقفیت کا ا ظہار کیا۔ ان کو پتا ہی نہیں تھا کہ ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں پٹنہ کے دو این جی او کا بھی نام ہے۔ انہوں نے ٹال مٹول والے انداز میں کہا؛اب تک یہ معاملہ ہمارے علم میں نہیں آیا ہے۔ ہمیں آپ سے اس کی جانکاری مل رہی ہے۔ اس بارے میں افسروں کو جانکاری دی جائےگی۔
مونگیر کے ایس پی گورو منگلا نے بتایا کہ ناویلٹی ویلفیئر سوسائٹی پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ یہ ایف آئی آر گزشتہ سوموار کو درج کی گئی ہے۔ ایس پی کہتے ہیں؛ابھی جانچ چل رہی ہے۔ کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
گیا، ارریہ اور موتیہاری کے کلکٹروں سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔ ان سے ہم نے مقدموں کے بارے میں کچھ سوال بھیجے ہیں، ان کے جواب آنے پر اس اسٹوری کو اپ ڈیٹ کریںگے۔
باقی ضلعوں میں کارروائی کی کیا رفتار ہے؟اس کے جواب میں بہارکے محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے ڈائریکٹر راج کمار کہتے ہیں، جہاں سے بھی سنگین شکایتں ملی تھیں، وہاں محکمہ سماجی فلاح و بہبود کی طرف سے کارروائی کی گئی ہے۔ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں 15 اداروں میں سنگین گڑبڑیوں کی بات ہے لیکن ڈائریکٹر ان کو سنگین نہیں مانتے۔
ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے بعد حکومت کو کارروائی میں دیری کیوں لگی؟ اس پر راج کمار پورے واقعہ کا الگ خاکہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ” 27 اپریل کو ٹی آئی ایس ایس نے رپورٹ کا ڈرافٹ محکمہ کو سپرد کیا۔ کوشش ٹیم کے ممبروں نے محکمہ سے رپورٹ کے سلسلے میں میٹنگ کرنے کی گزارش کی۔ 5 مئی اور 7 مئی کو محکمہ کے ساتھ میٹنگ ہوئی۔ 9 مئی کو آخری رپورٹ ٹی آئی آئی ایس نے سونپی۔ اس کے بعد 26 مئی کو علاقائی اہلکاروں کے ساتھ شعبہ جاتی میٹنگ ہوئی۔ “
راج کمار میڈیا سے ناراض دکھے۔ ان کے مطابق بہار حکومت کی تعریف کی جانی چاہیے جس نے خود سوشل آڈٹ ٹی آئی ایس ایس سے کروایا۔ جب نیوزلانڈری نے ان سے جاننا چاہا کہ محکمہ نے اس سے پہلے آخری بار کب آڈٹ کروایا تھا؟ کیا حکومت بالگریہہ کو امداد کی رقم بنا جانچکے دیتی ہے؟ راج کمار اس سوال کا جواب ٹال گئے۔ انہوں نے فون رکھتے ہوئے صرف اتنا بتایا کہ محکمہ سوشل آڈٹ کو باقاعدہ کرنے پر غور کر رہا ہے۔
بالیکاگریہہ اور مہلا الپ آواس گریہہ کے بارے میں ٹی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے بعد بہار کے محکمہ سماجی فلاح و بہبود نے ٹرانس جینڈرس کو حفاظت کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ سماجی فلاح و بہبود کے چیف سکریٹری کا
انڈین ایکسپریس کو دیے بیان کے مطابق ٹرانس جینڈرس کو حفاظت کی ذمہ داری دینے سے ظلم و زیادتی کے معاملوں میں کمی آئےگی۔ ٹرانس جینڈرس کو روزگار ملےگا اور یہ قدم سماجی ہم آہنگی قائم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
ٹس اور کوشش ٹیم کے ممبر محکمہ کے اس قدم سے اتفاق نہیں رکھتے۔ نیوزلانڈری سے بات چیت میں ٹیم کے ایک ممبر، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کہتے ہیں، حکومت کو ہم نے یہ صلاح کبھی نہیں دی۔ جو لوگ انسانی اسمگلنگ کے بارے میں سمجھ رکھتے ہیں، ان کو معلوم ہے ٹرانس جینڈرس کے اوپر کس طرح کے خطرے ہوتے ہیں۔ “
کوشش یونٹ کے ممبر مظفرپور کی کارروائی پر اطمینان جتاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت سوشل آڈٹ کو باقاعدہ بنائے۔ بچّوں، ضعیفوں اور خواتین کے بارے بتا دیں کہ بالگریہہ کے اندر کیا حالات ہیں۔ مقامی میڈیا کی رپورٹنگ پر کوشش یونٹ میڈیا کے رخ سے ناراض ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ اور پہلے نمایاں طور پر اٹھایا جانا چاہیے تھا۔
کئی بالگریہہ پر کارروائی نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ ہے کہ ان بالگریہہ میں لڑکوں کے جنسی استحصال کی اطلاع ملی ہے۔ موجودہ قانون کے تحت لڑکوں کے ساتھ ریپ پر کارروائی کا مناسب قانون نہیں ہے۔
بہر حال یہ کیسی حالت ہے جہاں آڈٹ میں پندرہ داغی اداروں کے نام سامنے آنے کے بعد اہلکاروں کی میٹنگ ہوتی ہے، فوری کارروائی کی بات کہی جاتی ہے اور اب دو مہینے کے بعد بھی باقی 14 اداروں میں مناسب کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔ انتظامیہ، میڈیا اور سیاست لوگوں کی امیدوں کو تباہ کرنے کا آلہ بن گئے ہیں؟ یا ریپ اور ظلم وستم کا واقعہ ہمارے لئے عام ہو چکے ہیں۔
(بہ شکریہ :نیوز لانڈری)
The post
ایک نہیں بہار کے 15اداروں میں ہورہا ہے بچوں کا استحصال appeared first on
The Wire - Urdu.