منی پور میں گزشتہ 45 دنوں سے جاری تشدد کے درمیان ریاستی لیڈروں کے دو وفود وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے15جون سے نئی دہلی میں ہیں۔
منی پور میں لگے وزیر اعظم نریندر مودی کی ‘گمشدگی’ کےپوسٹر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ @ashoswai)
نئی دہلی: گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے زیادہ عرصہ سے جاری تشدد کےبیچ منی پور کے لیڈروں کے کم از کم تین وفود،دو حکمراں بی جے پی کے اور ایک ریاستی کانگریس کے گزشتہ کئی دنوں سے دہلی میں رہنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے میں ناکام رہے۔
مئی کے آغاز سے ریاست میں جاری تشدد میں سینکڑوں لوگوں کی جان جا چکی ہے، لاکھوں کی املاک کو نقصان پہنچا ہے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے ہیں، لیکن وزیر اعظم مودی نے اس معاملے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب منی پور کی سڑکوں پر کُکی اور میتیئی کمیونٹی کے مسلح شہریوں کی بھیڑ حکومت کر رہی ہیں، وزیر اعظم کی اپنی ہی پارٹی کی مقتدرہ ریاست کی صورتحال پر مسلسل خاموشی پر سیاسی مخالفین، سول سوسائٹی گروپ اور مقامی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مودی کی خاموشی اور ریاست کے امن و امان کو سنبھالنے میں وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی نااہلی پر لوگوں کا غصہ سوشل میڈیا پر نظر آ رہا ہے، جہاں پی ایم کو ‘لاپتہ’ بتانے والے پوسٹر شیئر کیے جا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم کے ماہانہ ریڈیو پروگرام ‘من کی بات’ کی نشریات کے دوران مختلف مقامات پر ریڈیو سیٹ بھی توڑےگئے۔
مقامی خبروں کے مطابق، منی پور کے بی جے پی ایم ایل اے کے دو گروپ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے 15 جون سے نئی دہلی میں ہیں۔
امپھال فری پریس کی رپورٹ کے مطابق، ریاست میں امن و امان کو سنبھالنے کو لے کر بیرین سرکار (جو وزیر داخلہ بھی ہیں) کے خلاف
میتیئی کمیونٹی سے آنے والے نو بی جے پی ایم ایل اے نے 15 جون کو مودی سے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ انہیں اسی دن اس کی رسید مل گئی تھی، لیکن بتایا گیا کہ وزیر اعظم بین الاقوامی دورے پر جانے والے ہیں، اس لیے وفد نے 19 جون کو پی ایم او میں ایک میمورنڈم دیا ہے۔
ان میں کرم شیام سنگھ، ٹی رادھے شیام سنگھ، نشی کانت سنگھ سپم، کے رگھومنی، پی بروجن، وانگجنگ ٹنتھا، ٹی روبندرو، ایس راجن، ایس کے بی دیوی، نوریا پاکھناگلاکپا اور وائی رادھے شیام شامل ہیں۔
ان کے میمورنڈم میں ‘ریاست میں امن و امان کی بدتر صورتحال، موجودہ ریاستی حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہونے اور قانون کی حکمرانی کی بحالی کی بات کہی گئی ہے، اس کے ساتھ ہی ‘کسی بھی قیمت پر ریاست کی سالمیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے’ اور کُکی رہنماؤں کی اپنے علاقوں کے لیے علیحدہ انتظامیہ کی مانگ کو ماننے پر زور دیا گیا ہے۔
دریں اثنا، بی جے پی کے ممبران اسمبلی کے ایک اور گروپ نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کی درخواست کی تھی، لیکن ان کی میٹنگ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر خزانہ نرملا سیتارامن اور ریاست کے لیے پارٹی کے انچارج سمبت پاترا سے ہوئی۔
اس وفد میں جنتا دل (یونائیٹڈ) اور بی جے پی کی اتحادی نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) کے ایک ایک ایم ایل اے کے علاوہ پارٹی کے میتیئی ایم ایل اے بھی شامل تھے۔ اس وفد کی ایک اہم اپیل یہ بھی تھی کہ کُکی کے لیے علیحدہ انتظامیہ پر غور نہ کیا جائے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس گروپ کے ایک رکن نے کہا، سمبت پاترا نے وزیر داخلہ امت شاہ سے فون پر بات کی تھی… انہوں نے دوبارہ یقین دہانی کرائی کہ علاقائی سالمیت کو برقرار رکھا جائے گا۔
اس وفد نے پارٹی کے مرکزی وزراء کے سامنے ایک اہم سوال اٹھایا، وہ کُکی مسلح گروپ یو کے ایل ایف کے سربراہ ایس ایس ہاؤکیپ کے دعوے کےبارے میں تھا۔ واضح ہو کہ گزشتہ دنوں سامنے آئے ہاؤکیپ کے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے منی پور انتخابات جیتنے میں بی جے پی کی مدد کی تھی۔
ایک ایم ایل اے نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،اس کے بارے میں منی پور میں بات ہو رہی ہے اور اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے (مرکزی وزراء) نے ہمیں یقین دلایا کہ پارٹی اور ایس او او گروپوں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ یاسمجھوتہ نہیں ہے اور پارٹی کی طرف سے ایک دو دن میں وضاحت جاری کی جائے گی۔
تشدد زدہ منی پور سے آنے والے بی جے پی ایم ایل ایے کے لیے وقت نہ نکالنے پر وزیر اعظم کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوموار کو ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘آج منی پور کے بی جے پی ایم ایل اے کے ایک گروپ نے وزیر دفاع سے ملاقات کی۔ آج، منی پور کے بی جے پی ایم ایل اے کا ایک اور گروپ پی ایم کو میمورنڈم دینے گیا، جس میں کہا گیا تھاکہ لوگوں کا ریاستی انتظامیہ پر سے اعتماد ختم ہو گیا ہے – یعنی سی ایم کو تبدیل کرنا ہوگا۔ وہ ان سے نہیں ملے۔ منی پور میں خود بی جے پی متحد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریاست بری طرح تقسیم ہے۔ اور وزیر اعظم کو کوئی پرواہ نہیں ہے!
بی جے پی کے وفود کے علاوہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اوکرم ایبوبی سنگھ کی قیادت میں کانگریس کا ایک وفد بھی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے کئی دنوں سے نئی دہلی میں ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ریاستی کانگریس کی درخواست کے بارے میں پی ایم او کی طرف سے کوئی رسید ملی ہے، رمیش نے دی وائر کو بتایا کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم مودی منگل کو امریکہ اور مصر کے چار روزہ دورے پر روانہ ہو ئے ہیں۔
امپھال کے ایما بازار کی خواتین نے دہلی میں مظاہرہ کیا
انڈین ایکسپریس کے مطابق، سوموار کو دہلی کے جنتر منتر پر وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے منی پور سے آئی خواتین نے احتجاج کیا۔تقریباً 75 خواتین ریاست میں قیام امن کے لیے بنائی گئی کھوایرمبم ایما کیتھل کی مشترکہ رابطہ کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ایما کیتھل امپھال میں ایک بازار ہے جسے خواتین چلاتی ہیں۔
ان کی طرف سے ایک پریس کانفرنس بھی کی گئی جہاں ایک خاتون ایچ بنودنی نے کہا، ‘منی پور میں تمام برادریاں کئی سالوں سے امن سے رہ رہی ہیں۔ تشدد پھوٹ پڑا اور کئی لوگوں کے پاس جدید ترین بندوقیں اور گولہ بارود تھے، شہریوں پر گولیاں چلا رہے تھے۔ کتنی جانیں ضائع ہوئیں۔ ہم وزیر اعظم سے ملنے اور اپنی شکایات پیش کرنے کے لیے دہلی آئے ہیں تاکہ وہ مداخلت کر سکیں… وزیر داخلہ نے منی پور کا دورہ کیا، لیکن تشدد جاری ہے۔
ایک اور خاتون جی لیمبی نے کہا، ‘کیا ہم ہندوستان کے شہری نہیں ہیں؟ وزیر اعظم نریندر مودی منی پور کیوں نہیں آئے؟ان کے ساتھ آئی کے دھنیشوری نے کہا، ‘گزشتہ 45 دنوں سے جاری تشدد اور کئی اموات کے باوجود نہ تو وزیر اعظم آئے اور نہ ہی انہوں نے اس کے بارے میں ایک لفظ کہا۔ اگر انٹرنیٹ اور امن بحال ہوتا ہے تو بڑی تعداد میں لوگ جنتر منتر آئیں گے۔