راجستھان کے بانس واڑہ میں وزیر اعظم مودی کی تقریر کو ہزاروں شہریوں نے ‘خطرناک اور ہندوستان کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ’ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں نے کہا ہے کہ اس تقریر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کی ساکھ اور خود مختاری کمزور ہوگی۔
نئی دہلی: ملک کے ہزاروں شہریوں نے سوموار (22 اپریل) کو الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسٹار کمپینر اور وزیر اعظم نریندر مودی پرمسلمانوں کے خلاف ان کے نفرت انگیز تبصرے کے لیے کارروائی کرنے کو کہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 2200 سے زائد شہریوں نے اسے ‘خطرناک اور ہندوستان کے مسلمانوں پر براہ راست حملہ’ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے اپنی اپیل میں کہا: ‘وزیر اعظم نے (بھارتیہ جنتا پارٹی کے) اسٹار کمپینر کے طور پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے 21 اپریل کو راجستھان میں ایک تقریر کی، جس نے ہندوستان کے آئین کا احترام کرنے والے لاکھوں شہریوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔’
وزیر اعظم مودی نے اتوار، 21 اپریل کو راجستھان کے بانس واڑہ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا ، ‘اس سے پہلے جب ان کی (یو پی اے) حکومت تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس جائیداد کو جمع کریں گے اور ان میں بانٹ دیں گے —جن کے زیادہ بچے ہیں، وہ اسے دراندازوں میں تقسیم کر دیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی گھس پیٹھیوں کو دی جائے گی؟ کیا آپ اس کو قبول کرتے ہیں؟’
انہوں نے یہ بھی کہا، ‘کانگریس کا یہ منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں—بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے، اس کی جانکاری حاصل کریں گے اور پھر اس کا بٹوارہ کریں گے۔ منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ بھائیو اور بہنو، یہ اربن نکسل سوچ آپ کا منگل سوتر بھی نہیں بچنے دے گی، اتنی دور تک جائے گی۔’
الیکشن کمیشن کی توجہ مبذول کراتے ہوئے شہریوں کے گروپ نے کہا کہ ووٹ مانگنے کے لیے مودی کی زبان دنیا میں ‘مدر آف ڈیموکریسی ‘ کے طور پر ہندوستان کے قد کو بری طرح مجروح کرتی ہے۔
خط پر دستخط کرنے والوں نے کہا، ‘اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے میں الیکشن کمیشن کی ناکامی صرف اس کی ساکھ اور خود مختاری کو مجروح کرے گی، جسے آپ سے پہلے قابل تقلید افسران نے محفوظ اور برقرار رکھا۔’
دریں اثنا، 17500 سے زیادہ لوگوں کے دستخط والے سیو کنسٹی ٹیوشن سٹیزنز مہم کے ایک اور خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی نے ‘اس ضابطہ اخلاق (ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ) اور عوامی نمائندگی ایکٹ، 1951 کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔یہ ‘فرقہ وارانہ جذبات’ بھڑکانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے درمیان نفرت کو بھڑکانے اور بڑھانے والا بھی ہے۔’
سیو کنسٹی ٹیوشن سٹیزن مہم کے خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی نے مسلمانوں کو ایسی آبادی کے برابر قرار دیا ہے جو زیادہ بچے پیدا کرتی ہے اور ‘گھس پیٹھیا’ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘مودی جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں کیونکہ کانگریس پارٹی کے انتخابی منشور میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ ہندو خواتین کے سونے کے بارے میں معلومات جمع کرے گی اور اسے مسلمانوں میں تقسیم کرے گی۔’
سیو کنسٹی ٹیوشن سٹیزنز مہم کے خط میں الیکشن کمیشن سے مودی کی مذمت کرنے کو کہا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم کی تقریر ‘ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے’ اور ان کی مہم پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، جیسا کہ ماضی میں اس نوعیت کی خلاف ورزیوں پر کیا جاتا رہا ہے۔
اسی بیچ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے مودی کی بانس واڑہ تقریر کے لیے ان کے خلاف دہلی کے پولیس کمشنر کے پاس شکایت درج کرائی ہے۔ بائیں بازو کی پارٹی نے اس سے قبل دہلی کے مندر مارگ پولیس اسٹیشن سے اپنی شکایت درج کرانے کے لیے رجوع کیا تھا۔ تاہم، اسے قبول نہیں کیا گیا، جس کے بعد انہیں مودی کے خلاف دہلی پولیس کمشنر کو خط لکھنا پڑا۔
سی پی آئی (ایم) نے اپنے خط میں کہا، ‘21.04.2024 کو راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کی گئی اپنی تقریر میں مودی نے جان بوجھ کر اور حکمت عملی کے ساتھ مسلم مخالف حربے استعمال کیے تاکہ ہندو برادری کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ان کی جائیداد خطرے میں ہے، کیوں کہ کمیونٹی کی جائیداد خطرے ہے، خاص طور پر خواتین (ہندو) کا سونا اور منگل سوتر کانگریس پارٹی مسلم کمیونٹی کے ارکان میں تقسیم کرے گی۔ اس کا مقصد کسی گروپ میں ان کی رکنیت کی بنیاد پر افراد کو نشانہ بنانا اور گروپ کو نفرت کے ساتھ جوڑنا ہے۔ نفرت انگیز تقریر کے ذریعے ووٹ کی اپیل کرنا مکمل طور پر غیر قانونی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کیا ہے۔’