کیجریوال نے کہا کہ دہلی میں ‘کام کی سیاست’ کا جنم ہوا اور عآپ کی جیت پورے ملک کی جیت ہے۔
نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے عآپ کی شاندار جیت کو بھارت کی جیت بتاتے ہوئے کہا کہ دہلی اسمبلی انتخاب سے ایک نئی طرح کی سیاست کا ابھار ہوا ہے۔ اسکول، ہاسپٹل بنانے والی اور لگاتار سستی بجلی دینے والی پارٹی کو لوگوں نے انعام دیا ہے۔
قومی راجدھانی میں عآپ دفتر میں جشن میں ڈوبے حمایتیوں اور پارٹی کے کارکنوں کو اپنے مختصر خطاب میں کیجریوال نے کہا، ‘دہلی والوں غضب کر دیا آپ نے۔ آئی لویو۔’
الیکشن کمیشن کے تازہ اعدادوشمارکے مطابق دہلی میں 70 اسمبلی سیٹوں میں عام آدمی پارٹی 28سیٹیں اوربی جےپی دو سیٹیں چکی ہے۔ وہیں عآپ 35 سیٹوں پر بڑھت بنائے ہوئے ہے جبکہ بی جےپی پانچ سیٹوں پر آگے ہے۔
کیجریوال نے لوگوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا، ‘یہ جیت میری جیت نہیں ہے۔ یہ سبھی دہلی والوں کی جیت ہے۔ یہ دہلی کی ہر اس فیملی کی جیت ہے جنہوں نے مجھے اپنا بیٹا مان کر ہمیں زبردست حمایت دی۔’انہوں نے آگے کہا، ‘یہ ہر اس فیملی کی جیت ہے جس کو24 گھنٹے بجلی ملی ہے۔ یہ ہر اس فیملی کی جیت ہے جن کے بچوں کو اچھی تعلیم ملنے لگی ہے۔ یہ ہر اس فیملی کی جیت ہے جن کی فیملی کے لوگوں کو اچھا علاج ملنے لگا ہے۔’
اروند کیجریوال نے کہا کہ دہلی کے لوگوں نے آج ایک نئی قسم کی سیاست کو جنم دیا ہے، جس کا نام ہے کام کی سیاست۔ دہلی کے لوگوں نے اب پیغام دے دیا کہ ووٹ اسی کو جو اسکول بنوائے گا، ووٹ اسی کو جو محلہ کلینک بنوائے گا۔ ووٹ اسی کو جو 24 گھنٹے بجلی دے گا۔ ووٹ اسی کو جو سستی بجلی دے گا، گھر گھر کو پانی دے گا، محلے میں سڑک بنوائے گا۔
انہوں نے کہا، ‘یہ ایک نئی قسم کی سیاست ہے۔ یہ ملک کے لیے اچھا پیغام ہے۔ یہی سیاست ملک کو 21ویں صدی میں لے جائے گا۔ یہ بھارت ماتا کی جیت ہے۔’وہیں عام آدمی پارٹی کے اہم چہرے منیش سسودیا نے پت پڑگنج سیٹ سے جیت حاصل کرنے کے بعد کہا کہ دہلی کے لوگوں نے اپنے مینڈیٹ کے ذریعے راشٹرواد کا صحیح معنی سمجھایا ہے۔
تیسری بار اپنی سیٹ برقرار رکھنے والے سسودیا نے کہا کہ بی جے پی نے ‘نفرت کی سیاست’ کی لیکن لوگوں نے خود کو تقسیم کیے جانے سے انکار کر دیا۔انہوں نے صحافیوں سے کہا، ‘میں پت پڑگنج سیٹ دوبارہ جیت کر خوش ہوں۔ بی جے پی نے نفرت کی سیاست کی لیکن میں پت پڑگنج کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج، دہلی کے لوگوں نے ایسی سرکار کو چنا جو ان کے لیے کام کرتی ہے اور انہوں نے اپنے مینڈیٹ کے ذریعے راشٹرواد کا صحیح معنی سمجھایا۔’
نائب وزیر اعلیٰ اور حکومت کے تعلیمی ایجنڈے کی قیادت کرنے والے سسودیا نے روندر سنگھ نیگی کو 3000 سے زیادہ ووٹ کے فرق سے ہرایا۔شروعاتی رجحان میں کبھی سسودیا آگے تو کبھی نیگی آگے بڑھتے ہوئے دکھ رہے تھے۔ سسودیا کو 2013 میں 11000 ووٹ اور 2015 میں 28000 ووٹ کے فرق سے جیت ملی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)