دی وائر کو ملا انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کا 2021 فری میڈیا پاینیر ایوارڈ

انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرونفی نے کہا کہ دی وائر ہندوستان کے ڈیجیٹل نیوزکے شعبے میں آئی تبدیلی کا رہنما نام ہے ۔اس کی معیاری اورآزادانہ صحافت سے وابستگی دنیا بھر کے آئی پی آئی ممبران کے لیےباعث تحریک ہے۔

انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرونفی نے کہا کہ دی وائر ہندوستان  کے ڈیجیٹل نیوزکے شعبے  میں آئی  تبدیلی  کا رہنما  نام ہے ۔اس کی معیاری اورآزادانہ  صحافت سے وابستگی دنیا بھر کے آئی پی آئی ممبران کے لیےباعث تحریک ہے۔

The-Wire-Team

نئی دہلی:انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ(آئی پی آئی)نے بدھ کو اعلان کیاکہ ‘ہندوستان  میں ڈیجیٹل نیوزکے شعبےمیں انقلاب  کےعلمبردار،آزاد اورمعیاری صحافت  کے ایک حوصلہ مندمحافظ  کا کردار ادا کرانے کے لیے سال 2021 کا فری میڈیا پاینیر ایوارڈ دی وائر کو دیا گیا ہے۔

آئی پی آئی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرباربرا ٹرونفی نے کہا، ‘ہمیں یہ اطلاع  ہویتےہوئے بےحدفخر ہے کہ دی وائر اس سال آئی پی آئی-آئی یم ایس فری میڈیاپاینیر کےطور پرمنتخب کیاگیا ہے۔ دی وائر ہندوستان  کے ڈیجیٹل نیوز کے شعبے  میں آئی تبدیلی  کا رہنما نام ہے، اس کی معیاری اور آزادانہ  صحافت سے وابستگی دنیا بھر کے آئی پی آئی ممبران  کے لیے تحریک  کا باعث ہے۔ ہم دی وائر کےتمام ملازمین کو کرٹیکل  رپورٹنگ اور پریس کی آزادی میں ان کی  خدمات  کے لیے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان پر بڑھتے سیاسی  دباؤ کے خلاف ان کےساتھ کھڑے ہیں۔’

واضح ہو کہ یہ ایوارڈ 16 ستمبر کو آسٹریا کے ویانا میں آئی پی آئی کی سالانہ ورلڈ کانگریس میں دیا جائےگا۔

آئی پی آئی میڈیا ایگزیکٹوز،مدیران  اور صحافیوں  کا ایک عالمی  نیٹ ورک ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں آزاد پریس کے تحفظ کو یقینی  بنانا ہے۔1996میں سالانہ فری میڈیاپاینیرایوارڈ‘ان میڈیااداروں کی شناخت کے لیے شروع کیا گیا تھا، جو بہتر صحافت اور خبروں  تک رسائی کےلیے نئے طریقے سے کام کر رہے ہیں یا اپنےملک یا خطے میں دباؤ سے پاک اور زیادہ آزاد  میڈیا کو یقینی بنانے میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔’

پچھلے سال یہ ایوارڈ مصر کی نیوز ویب سائٹ ‘مدی مصر’کو دیا گیا تھا۔ ایوارڈ کے سابقہ فاتحین میں فلپائن نیوز سائٹ ‘ریپلر’، افغان جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی اور روس کی‘نووایا گزیٹا’ شامل ہیں۔

دی وائر کو یہ ایوارڈ دیےجانے کے اعلان کے ساتھ آئی پی آئی نے ان خطرات جن میں  مقدمے اور سرولانس وغیرہ  بھی شامل ہیں کا ذکر بھی کیا ہے، جن کا سامنا دی وائر کے مدیران  اور صحافیوں  نے کیا ہے۔

ہندوستان میں پریس کی آزادی  میں تنزلی  کےدرمیان عوام سےوابستہ خبروں کےتئیں  دی وائر کی وابستگی  نے اسے سرکاری ہراسانی کا نشانہ بنایا ہے۔صرف رواں سال میں ادارے اور اس کے صحافیوں  کے خلاف تین معاملے درج کیے گئے ہیں، جس میں ہندوستان  کے کسانوں کےاحتجاجی مظاہروں  کی کوریج بھی شامل ہے۔ 2020 میں دی وائر اور اس کے مدیر سدھارتھ وردراجن پر مذہبی رہنماؤں کےکووڈ 19کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی رپورٹ کرنے پر ‘ڈر پھیلانے’ کاالزام  لگایا گیا تھا۔ادارہ  اس سے پہلے ہی 14 ہتک عزت  کے معاملوں کا سامنا کر رہا ہے، جہاں مقتدرہ پارٹی  نے ان پر تقریباً1.3 بلین ڈالر کا دعویٰ کیا ہے۔

اس سال پیگاسس پروجیکٹ کےانکشافات کے ساتھ دی وائر اور اس کے صحافیوں  پر دباؤ کااور سیاہ پہلو سامنے آیا۔ سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے فون ممکنہ طور پرحکومت ہند کے اشارے پر اسرائیلی اسپائی ویئر پیگاسس سے متاثر ملے،  جبکہ دی وائر کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر کا نام سرولانس کےممکنہ نشانوں  کی لیک ہوئی فہرست  میں تھا۔ دی وائر، فاربڈن اسٹوریز کی مرتب  کی گئی ایک مشترکہ عالمی تفتیش  کا حصہ تھا، جس نے پیگاسس کے ذریعےصحافیوں  اورانسانی حقوق کے محافظوں  کی سرکاری سرولانس کوبے نقاب  کیا۔

دی وائر ہندوستان میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے لیے لائے گئے نئے قوانین ، جو ڈیجیٹل مواد کو سینسر کرنے کے لیےحکام کو زیادہ اختیار ات دیتے ہیں، اس کے خلاف لڑائی میں بھی سب سے آگے رہا ہے۔ دی  وائر کےپبلشر فاؤنڈیشن فارا نڈیپنڈنٹ جرنلزم نے ان قوانین  کے خلاف عدالت کا رخ کیا ہے۔اس کے مطابق یہ ضابطے سرکار کی جانب سے میڈیا کو یہ بتانے کی ایک غیرآئینی کوشش ہے کہ وہ کیا شائع  کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔

دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن نے ایوار  ملنےپر کہا، ‘دی وائر آئی پی آئی/آئی ایم ایس فری میڈیا پاینیر ایوارڈ ملنے پر بے حد خوش ہے۔ہم نے ملک کےاکثر میڈیا پر حاوی سیاسی  اور کارپوریٹ دباؤ سے آزاد ہوکر ملک  کے لوگوں کو معیاری صحافت  فراہم کرنے کے اپنے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے اپنی آزادی کے لیے ایک قیمت ادا کی  ہے ہتک عزت  کے معاملے اور صحافت  کرنے کے لیےمجرمانہ الزامات، اوریقینی طور پر فنڈمہنا کرنے  میں آنے والی مشکلات۔ لیکن اس سفر کو ملک  اور دنیا کے اپنے ساتھیوں کی طرف سے تسلیم کیا  جانا اسےبامقصد بناتا ہے۔’