ناگپوری بولی کے مقبول گلوکار عزیز انصاری، مفلسی کے شکار

عزیز انصاری نے ناگپوری بولی میں تقریباً 4ہزار نغمے لکھے اور گائے۔ان کے ٹھیٹ اور قدیم ناگپوری نغمات میں گاؤں کا دردوغم ہے تو مقامی تہذیب کی خوشبو بھی ہے۔ خیرسگالی کے پیغام ہیں تو سماجی برائیوں پر طنز بھی۔ The post ناگپوری بولی کے مقبول گلوکار عزیز انصاری، مفلسی کے شکار appeared first on The Wire - Urdu.

 عزیز انصاری نے ناگپوری بولی میں تقریباً 4ہزار  نغمے لکھے اور گائے۔ان کے ٹھیٹ اور قدیم ناگپوری نغمات میں گاؤں کا دردوغم ہے تو مقامی تہذیب کی خوشبو بھی ہے۔ خیرسگالی کے پیغام ہیں تو سماجی برائیوں پر طنز بھی۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

ناگپوری بولی میں آج بھی جب عزیز انصاری کی آواز رانچی کے آکاش وانی پر سنائی دیتی ہے تو گاؤں قصبوں میں لوگوں کی آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں۔  ساتویں پاس 65 سالہ عزیز انصاری ناگپوری نغمہ نگار اور گلوکار  ہیں ۔قابل ذکر بات یہ کہ انہوں نے آج تک دوسروں کے لکھے ہوئے گانے نہیں گائے ۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے عزیزانصاری اپنے لکھے مقبول رخصتی  کے بارے میں کہتے ہیں؛

گیت میں ماں اور بیٹی کے درمیان سوال جواب ہو رہا ہے۔بیٹی روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ آج میں سسرال چلی جاؤں‌گی، اور آج سے ہی میرا میکے چھوٹ جائے‌گا۔ اس پر ماں کہتی ہے کہ پوس پال‌کر اتنا بڑا کیا۔اپنا پیٹ کاٹ‌کر تم کو کھلایا۔آج تم میری نظروں سے دور جا رہی ہو۔

عزیز انصاری آگے بتاتے ہیں کہ ؛

ان کو اس طرح کے نغمے کا خیال گاؤں کی شادیوں میں رخصتی یعنی وداعی والے لمحے کو دیکھ‌کر آیا تھا۔

انہوں نے ناگپوری زبان میں اسی طرح کے تقریباً 4ہزار گانے لکھے اور گائے۔غور طلب ہے کہ خدا داد صلاحیت کے مالک  عزیز انصاری نے ناگپوری میں نغمہ لکھنا اور گانا کسی سے نہیں سیکھا۔  گاؤں میں باپ اور دو بھائیوں  کے ساتھ جو مفلسی اور غریبی جھیلی اور دیکھی اس کو قلمبند کرتے گئے اور ہندی میں ناگپوری بول سے فضا میں مٹھاس گھولتے گئے۔ان کے ٹھیٹ اور قدیم ناگپوری نغمات میں گاؤں کا دردوغم ہے تو مقامی تہذیب کی خوشبو بھی ہے۔ خیرسگالی کے پیغام ہیں تو سماجی برائیوں پر طنز بھی۔

ویڈیو : عزیز انصاری کی کہانی ، خود ان کی زبانی 

ساتھ میں کئی پروگرام کر چکے ہیں شہاب الدین انصاری بتاتے ہیں کہ عزیزانصاری نے جھارکھنڈ کے بننے پر جو نغمہ لکھا اور گایا تھا اس پرآج بھی آکاشوانی میں باتیں ہوتی ہیں۔شہاب الدین مزید کہتے ہیں کہ ؛اس طرح کے گانوں میں انہوں نے ریاست کی معدنیاتی ثروت مندی ،خیرسگالی ، تہذیب اور انقلاب کی جدوجہد کو ایک ساتھ سمیٹا ہے۔ان کا یہ خاص نغمہ آج بھی آل انڈیا ریڈیو پر بجتا ہے۔

28 سال کی عمر میں ہی عزیزکی سریلی آواز نے 80 کی دہائی میں گاؤں سے ریڈیو-ٹی وی تک کا سفر طے کر لیا۔لوگوں نے ریڈیو پر  36 راگوں میں ان کے سینکڑوں گیت سنے۔ عزیز کی اس صلاحیت کو دیکھ کر حکومت ہند کے وزارتِ اطلاعات و نشریات نے 1998 ان کو رجسٹرڈ لوک گایک کا درجہ دیا۔لیکن ان کی پہچان آج تک گاؤں کے کھپریل گھر کی حد تک ہی سمٹی رہی۔اس پر اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے عزیز کہتے ہیں؛

ان سب کے باوجود بھی مجھے ریاستی حکومت کا انعام نظرانداز کرنے والے رویےکے طور پر ملا۔یہی وجہ رہی کہ میں نے 2012 کے بعد ریڈیو-ٹی وی پر گانے-بجانے کو الوداع کہہ دیا ہے۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

جھارکھنڈی عوامی گلوکار عزیز انصاری گزشتہ کئی سالوں سے رانچی سے 20 کلومیٹر دور رانچی ضلع کے راتو بلاک کے ہرہری گاؤں اپنی فیملی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا افسوس آج بھی ہے کہ سینکڑوں نغمہ گانے کے باوجود بھی ان کو پہچان نہیں مل پائی۔

عزیز انصاری کی آواز اور ان کی صلاحیت کے قائل پدم شری عوامی گلوکار-رقاص مکُند نایک اور مدھو منصوری جیسے مقبول عام فنکار بھی ہیں۔  مُکند نایک، عزیز انصاری کو بےمثال بتاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں؛

ان کے گائے ناگپوری نغمات پر آج بھی گاؤں میں لوگ جھوم اٹھتے ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے کئی پروگرام کیا ہے جو میرے لیے خوشگوار لمحوں میں سے ہے۔

وہیں عزیز انصاری اپنی بات-چیت میں بتاتے ہیں کہ ؛

میں مکند نایک سے پہلی بار 1987 میں ایک پروگرام کے دوران ملا تھا۔انہوں نے اساڑھ سے متعلق میرے  نغمے کی نے بہت پذیرائی کی تھی۔اس کے بعد سے اکثر ان سے رانچی ناگپوری کلا سنگم میں ملاقات ہونے لگی۔

قلمکاراشونی پنکج عزیز  انصاری کے  بارے میں  کہتے ہیں کہ؛

یہ جھارکھنڈ کی وراثت ہیں۔مہاویر نایک، مدھو منصوری اور عزیز  انصاری جیسے فنکار ویڈیو البم اور نئی ٹکنالوجی کی وجہ سے سمٹتے جا رہے ہیں۔  ان کے میٹھے بول کو تاریخ کے صفحات میں سنجوئے رکھنے کی ضرورت ہے۔

رانچی کانکے بلاک کے گاگی گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر میں جب کبھی والد غلام رسول انصاری لوگوں کے ساتھ غزل یا شاعری پڑھا کرتے، تب 13 سال کے عزیز انصاری ان کی جماعت میں شامل ہو جاتے۔ان کو سن‌کی ان لائنیں دوہرانے لگتے۔بچپن سے ہی نغمہ و موسیقی کی طرف جھکاؤ دیکھ کروالد، عزیز کو اکثر پروگرام میں ساتھ لے جاتے۔بات 74-1972کی ہے اور اب عزیز کی عمر قریب 17، وہ شادی بیاہ میں بجنے والے ناگپوری نغمہ پورے دل سے سنتے اور گنگناتے۔  عزیز  اپنی کہانی سناتے ہوئے آگے کہتے ہیں؛

ان کو بچپن سے ہی ناگپوری گیت گانے اور لکھنے کا کابھی شوق تھا۔ایک بار بچپن میں دوستوں کے ساتھ مڈھما میلہ میں گیا تو وہاں ناگپوری گانوں کی کتاب کو دکاندار گاکر بیچ رہا تھا۔  دل کیا کہ ڈھیر ساری کتابیں خرید لوں۔لیکن پاس میں ایک کتاب کا بھی پیسہ نہیں تھا۔اس دن سے میرا دل ناگپوری گیتوں کی طرف اور مضبوطی سے مائل ہو گیا۔اس کے بعد سے ہی دل ہی دل جیسےتیسے اپنے ہی بول بناکر گانے لگا۔

فوٹو: محمد اصغر خان

فوٹو: محمد اصغر خان

عزیز کے لکھنے اور گانے میں آہستہ آہستہ کچھ اصلاح ہوا تو گاؤں میں ان کا ذکر ہونے لگا۔ اب وہ گاؤں، اسکول میں بےجھجک گاتے تھے۔ایک بار گاؤں میں نگڑی ہائی اسکول کے استاد آئے ہوئے تھے،جنہوں نے عزیز کو گاتے سن کر اپنے اسکولی بچوں کو تربیت دینے کی دعوت  دی۔عزیز انصاری کہتے ہیں کہ ؛

اسی ٹیچر کی مدد سے پہلی بار ایمرجنسی میں (1977) میں، میں نے دو کتاب لکھی اور اس کی1000 کاپیاں چھپوائیں۔17 روپے کے اس چھپائی سے مجھے پانچ سو روپے کی آمدنی ہوئی۔ نام، شہرت اور پہچان الگ۔  حالانکہ بعد میں میں نے ناگپوری نغمے پر ایک کتاب بھی لکھی جو کافی مقبول ہوئی۔

ان سب کے درمیان عزیز انصاری کو لوگ عوامی گلوکار کے روپ میں جاننے لگے تھے۔  انصاری بتاتے ہیں کہ اسی دوران ڈرامہ نگار اور گلوکار شہاب الدین انصاری سے میری ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے آل انڈیا ریڈیو رانچی میں درخواست دیا۔آڈیشن کے بعد ہم لوگوں کا انتخاب ہو گیا۔ اور اس طرح 1983 میں، میں نے پہلی بار آل انڈیا ریڈیو میں اپنا ہی لکھا ہوا نغمہ گایا۔

لیکن یہ سب تو گزرے ہوئے کل کی داستانیں ہیں آج کی سچائی یہی ہے کہ یہ فن کار مفلسی اور گمنامی کی زندگی بسر کررہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ریاستی حکومت اور لوک ورثے میں دلچسپی رکھنے والے ادارے ان کی خبر لیں تاکہ مستقبل کے کسی عزیز انصاری کو گمنامی میں جینا نہ پڑے اور ان کا فن زندہ رہے۔

The post ناگپوری بولی کے مقبول گلوکار عزیز انصاری، مفلسی کے شکار appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

’سنتوش فلم پر پابندی افسوسناک، کچھ لوگوں کی سوچ کی وجہ سے یہ عوام تک نہیں پہنچ پا رہی‘

ہندوستان میں سینسر بورڈ نے عالمی شہرت یافتہ فلمساز سندھیا سوری کی فلم ‘سنتوش’ کی ریلیز کو روک دیا کیونکہ اسے لگا کہ یہ پولیس کی منفی امیج کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ شہانا گوسوامی نے ادا کیا ہے، جن کے کام کو خوب پذیرائی ملی ہے۔ ان سے انکت راج کی بات چیت۔

Next Article

موت کی کتاب: ایک حقیقی ادبی تخلیق

فرانسیسی نقاد پیترک ابراہم کا تبصرہ: خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن

موت کی کتاب، فوٹو بہ شکریہ: متعلقہ پبلی کیشن


پیترک ابراہم کا یہ تبصرہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا ہے، محمد ریحان کے شکریے کے ساتھ یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)


یہ یقیناََ ایک خوش آئند خبر ہے کہ معاصر ہندوستانی ادیب پروفیسر خالد جاوید کا ناول ’موت کی کتاب‘ ایڈیشن بنیان کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر منصۂ شہود پر آ گیا ہے، بالخصوص اس پس منظر میں کہ فرانسیسی زبان میں اردو ادب کے تراجم خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

اردو ادب ہمارے لیے ایک غیر دریافت شدہ براعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شاندار اقدام کے لیے ڈیوڈ ایمے کو ہم مبارک باد دیتے ہیں اور روزن-آلس ویئے کو ان کے غیر معمولی اور معیاری ترجمے پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

’موت کی کتاب‘ مختصر ہونے کے باوجود اپنی گہری تاریکی اور معنوی تہہ داری کے باعث ایک عظیم تخلیقی شہ پارہ ہے۔

یہ ایک ایسا ناول  ہے جو پہلی ہی قرأت میں ذہن و روح پر نقش ہو جاتا ہے، ہمیں ہماری اپنی داخلی تاریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور ہمیں اس بات کے لیے مجبور کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ بار بار کیا جائے۔

والٹر شیلر نامی شخص، جو سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی کے شعبۂ آثارِ قدیمہ سے وابستہ ہے، اپنی ’تمہید‘ (صفحہ 1-6) 2211 میں قلمبند کرتا ہے۔ اس میں وہ ایک ایسے مخطوطے کی دریافت کا ذکر کرتا ہے، جو ایک فراموش شدہ زبان میں تحریر تھا اور جسے سمجھنے میں بے حد دشواری پیش آئی تھی۔

یہ تحریر ’گرگٹہ تل ماس‘ کے کھنڈرات میں ملی تھی، جہاں تقریباً دو صدی قبل، اس قصبے کو ہائیڈرو الکٹرک ڈیم کی تعمیر کے لیے غرق آب کیے جانے سے پہلے، ایک ’پاگل خانہ‘ قائم تھا۔

اس کے بعد مسودے کے مصنف کا درد میں ڈوبا ہوا مگر ظرافت سے بھرپور یکطرفہ مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے عہد کا سراغ ملتا ہے، نہ ہی اس سرزمین کا جہاں اس نے اپنی زندگی بسر کی، اگرچہ ہمارا قیاس یہی کہتا ہے کہ وہ شمالی ہند کا باسی ہے۔

اس کردار کا وجود ایک ایسی داخلی اجنبیت کے احساس پر مبنی ہے جو اسے دنیا سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم رکھتا ہے۔

وہ موت کے خیال کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہےاور خودکشی کا آسیب کسی ناگزیر سائے کی مانند اس کے شعور پر سایہ فگن رہتا ہے۔ مگر اس کے لیے خودکشی محض ایک ترغیب، ایک خیال نہیں بلکہ ایک مجسم ہستی ہے، جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے۔

483527155_9483265428385970_8536707087862918278_n

یہ خود کشی پالتو گلہری کی شکل میں اس کی پتلون کی جیب میں جا بیٹھتی ہے۔ جب وہ افسردگی کے عالم میں چہل قدمی کرتا ہوا ریلوے لائن کے قریب پہنچتا ہے (صفحہ 19-23)، تو یہی خود کشی اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ خود کو ٹرین کے حوالے کر دے۔

کئی اشارے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وجودی اضطراب صرف بچپن کے دنوں تک محدود نہیں (صفحہ 43-46، 47-53، 54-59، 60-62)، بلکہ اس کی بازگشت پیدائش سے پہلے کی گھڑیوں میں بھی سنائی دیتی ہے (صفحہ 113-114)۔

تاہم، یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ابتدائی دور کا صدمہ موجود ہے تو اس کی جڑیں کسی محض اتفاقی حادثے میں نہیں، بلکہ کسی گہری اور پیچیدہ حقیقت میں پیوست ہیں۔ اس پس منظر میں ’موت کی کتاب‘ کا علمی و فکری مطالعہ نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ میں اگلے صفحات پر اس پہلو پر مزید روشنی ڈالوں گا۔

راوی اپنی ماں کی موت کے بعد، جو مسلسل تشدد اور محرومیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے، شادی کر لیتا ہے، مگر اس کے دل میں باپ کے قتل کی خواہش اور دونوں کے مابین نفرت کی دیوار جوں کی توں قائم رہتی ہے۔

اس کی زندگی میں ایک معشوقہ بھی ہے، جس کی ہتھیلیاں زردی مائل اور آنکھیں ویران ہیں۔ وہ، اس کی بیوی کے برعکس، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس سے محبت کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ خوش نہیں ہے (صفحہ 16-18، 19-23، 24-25)۔

سنیما کی بات کو پس پشت ڈال دیں تو جدید ہندوستانی ادب عموماً جنسی موضوعات کے بیان میں جھجک کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر خالد جاوید اپنے المناک کردار کے ازدواجی اور ناجائز تعلقات کو بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: نعمت خانہ: سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کی تلاش …


ناول کا اختتام ایک جہنمی موسم (صفحہ 84-91، 92-103) پر ہوتا ہے، جہاں راوی خود کو ایک ایسی مایوسی میں قید کر لیتا ہے جس سے فرار ممکن نہیں، اور وہ نہایت منظم انداز میں اپنی ہی ذات سے گھن کھانے لگتا ہے۔ اس کے مکروہ اور بدنما خودبیانیہ پرغور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، جو اس کی گہری نفرت کی عکاسی کرتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے لوترے آموں (Lautréamont) کے اسلوب میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا روزن-آلس ویئے اور ڈیوڈ ایمے کو اس بات کا علم ہے کہ خالد جاوید نے Les Chants de Maldoror کا مطالعہ کیا ہے اور کیا وہ اس سے متاثر ہوئے ہیں؟

لوترےآموں ’لے شوں‘ (IV, 5) میں لکھتا ہے؛

’میں غلیظ ہوں۔ جوئیں میرے جسم کو کھا رہی ہیں۔ سور مجھے دیکھ کر قے کر دیتے ہیں۔ کوڑھ کے زخموں کی پپڑیاں میری جلد سے اتر چکی ہیں، اور میرا جسم پیلے رنگ کے پیپ میں لت پت ہے۔‘

خالد جاوید اپنے ناول (صفحہ 87، 92) میں لکھتے ہیں؛

’میں نے جسم کا خیال رکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ۔ میں گندا اور غلیظ رہنے لگا۔ (…) زخم سے پیپ کی دوری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جلد ہی میں ایک قد آدم زخم کے اندر چلوں گا۔‘

راوی کا باپ اور اس کی بیوی اسے ایک پاگل خانے میں داخل کرانے کا فیصلہ کرتے ہیں (صفحہ 104-115)، ایک مشکل آزمائش، جس سے نجات اسے صرف اپنے والد کی موت کے بعد ہی ملتی ہے۔ رہائی کے بعد، وہ بارش میں اس پاگل خانے کی’سیاہ اور دیو ہیکل دیواروں‘ سے دور نکل جاتا ہے اور بالآخر بیکٹ کے کسی کردار کی مانند، کیچڑ سے بھرے ایک گڑھے میں پناہ لے لیتا ہے (صفحہ 118-124)۔

یہ کتاب ابواب کے بجائے’اوراق‘ میں منقسم ہے،کل انیس اوراق۔ بیسواں ورق(صفحہ 125) خالی رہتا ہے اور کتاب ایک پُراسرار جملے پر اس طرح ختم ہوتی ہے؛’لامحدود اور بیکراں زمانوں تک……‘ اور یہ جملہ، جیسا کہ خالد جاویدلکھتے ہیں (عرض مصنف، صفحہ i-ii) ، سنسکرت زبان کے ایک پراسرار حرف ’ری‘ (ऋ) کی جانب اشارہ کرتا ہے، جس کی دھاتو پر غور کریں تو اس کا مطلب ’پتھر پر خراشیں ڈالنا‘ یا ’مصنف اور اس کی تحریر کے درمیان کوئی دوئی یا دوری نہ باقی رہے‘ ہو سکتا ہے۔

اس میں نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال، پاگل خانے کا ذکر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بیان کردہ واقعات پر کتنا اعتبار کرنا چاہیے۔ آخر ہم اس راوی کی باتوں پر کہاں تک یقین کریں؟ کیا یہ کسی کا ایک بے باک اعتراف ہے یا کسی دیوانے کی ڈائری؟

والٹر شیلر، جو خود کو تئیسویں صدی کا ماہرِ آثارِ قدیمہ ظاہر کرتا ہے، حقیقت میں وہی اس متن کا مصنف تو نہیں؟ کیا والٹر شیلر، اس کی ’سیوکاریگ فورٹ یونیورسٹی‘، اور اس کا دوست ’ژاں ہیوگو،جو ’گارساں دَ تاسی‘ کی نسل سے ہے اور اس مخطوطے کا مترجم بھی، کیاواقعی میں یہ سب کوئی حقیقی وجود رکھتے ہیں؟

یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اس میں کیا حقیقی ہے اور کیا نہیں۔ کیوں کہ یہ نہ تو کسی طبی معائنے کے لیے پیش کردہ’دستاویز‘ ہے، نہ ہی خودنوشت کہانی (جو ان دنوں فرانس میں بے حد مقبول ہے) اور نہ ہی کوئی ایسا سنسنی خیز افسانہ جس کی کہانی گھسے پٹے انداز میں بُنی گئی ہو۔ بلکہ یہ ایک حقیقی ادبی تخلیق ہے (یونانی مفہوم میں ایک نظم کے مترادف) جس کے سوالات کے جواب صرف اس کے بیانیے کے اندر ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: ’میری ہر تحریر موت کی ایک کتاب ہے‘


اس ناول کا عنوان بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس کی تعبیر کیسے کی جائے؟ اس حوالے سے کئی عبارتیں موجود ہیں جو اس کی تفہیم میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں (صفحہ 89، 106، 115، 119)۔ ’موت کی کتاب‘شاید وہی کتاب ہے جس میں ’ہمارے گناہوں کا اندراج ہوگا‘ اور جو صرف اس وقت قابلِ مطالعہ ہوگی جب ہم خودفنا ہو چکے ہوں گے، یعنی اس وقت جب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کتاب کی ترتیب کئی جنم پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی، کیونکہ اسے ’کرموں کے لگاتار بہتے ہوئے سنسکاروں نے گڑھا ہے‘، جن پر ہمارا ’کوئی اختیار‘ نہیں تھا۔’ (ہمارے) سارے اعمال اور (ہمارے) سارے گناہ (ہمارے) جنم لینے سے پہلے ہی(ہمارے) تعاقب میں ہیں۔‘

یہ مفروضہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہو سکتا ہے جہاں غنوصی تعبیر از سر نو ابھر کر سامنے آتی ہے؛ کیا یہ کتاب خدا اور شیطان کی مشترکہ تخلیق نہیں،جس میں ’شیطان کے قلم کی سیاہی اڑنے والی نہیں‘ ہے؟ کیا خدااور شیطان (خدا اپنے ہی کھیل میں شیطان کی شمولیت قبول کرنے پر مجبور ہے) مل کر ہماری زندگیاں لکھ رہے ہیں، ہماری بدبختی کی، اور وہ بھی ہماری لاعلمی میں؟

مجھے امید ہے کہ میں یہ واضح کر نے میں کامیاب ہوں کہ خالد جاوید کا پہلا ناول (’موت کی کتاب‘ عربی میں لفظ ’کتاب‘ ’مقدس کتاب‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے) فکر و معنی کے بے شمار در وا کرتا ہے، کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتا اور ناول کا یہی پہلو اسے مسحور کن بنا دیتا ہے۔

سال 2025 کا Le Prix Médicis étranger انعام، جو غیرانگریزی ہندوستانی ادب کو عالمی توجہ دلانے کا مؤثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے، اگر اس ناول کو دیا جائے تو کسی طور پر غیر مناسب نہ ہوگا۔

(پیترک ابراہم افرانسیسی تنقیدنگار، صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ عصری ادب پر اپنے بصیرت افروز تبصرے اور مضامین کے لیےمعروف ہیں۔)

Next Article

ہندی کے نامور ادیب ونود کمار شکل کو اس سال کے گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جائے گا

گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار ان معدودے چند ادیبوں  میں ہوتا ہے، جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔

ونود کمار شکلا (تصویر بہ شکریہ: x/@vishnudsai)

ونود کمار شکلا (تصویر بہ شکریہ: x/@vishnudsai)

نئی دہلی:  ہندی کے معروف  شاعر اور ادیب ونود کمار شکل کو اس سال ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزازگیان  پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ اس کا اعلان سنیچر (22 مارچ) کو نئی دہلی میں گیان  پیٹھ کی کمیٹی نے کیا۔

قابل ذکر ہے کہ چھتیس گڑھ کے کسی ادیب  کو پہلی بارگیان  پیٹھ ایوارڈ دیا جائے گا۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے ادبی دنیا میں فعال  ونود کمار شکل یکم جنوری 1937 کو راج ناندگاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ کئی دہائیوں سے رائے پور میں مقیم ہیں۔ وہ ان معدودے چند ادیبوں میں ہیں ،جنہوں نے زبان کے نئے محاورے وضع کیے ہیں۔

ان کے نام کے اعلان کے بعد چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ وشنو دیو سائی نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ چھتیس گڑھ کے لیے فخر کی بات ہے کہ ملک کے نامور ناول نگار اور شاعر ونود کمار شکل کو باوقار گیان  پیٹھ ایوارڈ ملا ہے۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کو ایک بار پھر ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر فخر محسوس کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ونود کمار شکل کی تخلیقات

ونود کمار شکل کا پہلا شعری مجموعہ ‘لگ بھگ  جئے ہند’ 1971 میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد سے ان کی تحریروں نے ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی۔ ان کی تخلیقات عام لوگوں کی  زندگی کو غیر معمولی انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس منفرد اسلوب کی وجہ سے وہ ادبی دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔

انہوں نے ‘نوکر کی قمیص’، ‘کھلے گا تو دیکھیں گے’ اور ‘دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی’ جیسے بہترین ناول لکھے، جنہیں پوری دنیا میں سراہا گیا۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ‘پیڑ پر کمرہ’، ‘آدمی  کی عورت’ اور ‘مہاودیالیہ’ بھی کافی مشہور ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نظموں میں  ‘وہ آدمی چلا گیا نیا گرم کوٹ پہن کر’، ‘آکاش دھرتی کو کھٹکھٹاتا ہے’ اور ‘کویتا سے لمبی کویتا’ بہت مقبول ہیں۔

ونود کمار شکل نے بچوں کا ادب بھی لکھا ہے۔ بچوں کے لیے ان کی کتابوں میں ‘ہرے پتے کے رنگ کی  پترنگی’ اور ‘کہیں کھو گیا نام کا لڑکا’ شامل ہیں۔ ان کی کتابوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور ان کا ادب پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔

ونود کمار شکل کو کئی ایوارڈمل چکے  ہیں، مثلاً گجانن مادھو مکتی بودھ فیلوشپ، رضا ایوارڈ اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ناول ‘دیوار میں ایک کھڑ کی رہتی تھی’ کے لیے۔

اس کے علاوہ انہیں ماتر بھومی بک آف دی ایئرایوارڈ اور پین امریکہ نابوکاؤ ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ وہ اس ایوارڈ کو پانے والے ایشیا کے پہلے ادیب تھے ۔ ان کے ناول ‘نوکر کی قمیص’ پر مشہور فلمساز منی کول نے ایک  فلم  بھی بنائی تھی۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال 2024 میں ساہتیہ اکادمی نے انہیں گریٹر ساہتیہ اکادمی کی رکنیت سے نوازا تھا۔

Next Article

پروپیگنڈہ نے ہمارے سنیما کو مسخ کر دیا ہے: اویناش داس

حال ہی میں آئی فلم ‘ان گلیوں میں’ کے ڈائریکٹر اویناش داس کے ساتھ دی وائر کی مدیر سیما چشتی کی بات چیت۔ لکھنؤ میں سیٹ یہ فلم ایک چھوٹے سے شہر میں بین المذاہب محبت کی باریکیوں کو تلاش کرتی ہے اور اس پر معاشرے کے ردعمل کے جوہر کو پیش کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والی پروپیگنڈہ فلموں کے درمیان، داس کی یہ فلم تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آئی ہے، جو ڈیجیٹل دور میں محبت، پہچان اور سماجی اصولوں پر ایک نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔

Next Article

سنیما، کامیڈی، زندگی …

ورون گروور نغمہ  نگار، اسکرین رائٹر اور اسٹینڈ اپ کامک کے طور پر معروف ہیں۔ تاہم، گزشتہ دنوں انہوں نے ڈائریکٹر کے طور پر اپنی ایک نئی شناخت بنائی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ادب اطفال بھی لکھتے ہیں۔ ان سے دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج کی بات چیت۔