اداریہ: ملک میں جاری مظاہرے شہریت قانون کی مخالفت کے ساتھ آئین کے تحفظ کے لیے بھی ہیں

این آر سی اور این پی آر کو خارج کیا جانا چاہیے اور شہریت قانون کو از سر نو تیار کیا جاناچاہیے، جس میں اس کے اہتمام کسی مذہب کے لیے مخصوص نہ ہوں، بلکہ سبھی متاثرین کے لیے ہوں۔

این آر سی اور این پی آر کو خارج کیا جانا چاہیے اور شہریت قانون کو از سر نو تیار کیا جاناچاہیے، جس میں اس کے اہتمام کسی مذہب  کے لیے مخصوص نہ ہوں، بلکہ سبھی متاثرین کے لیے ہوں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستان  کی عوام نے اپنی بات کہہ دی ہے وہ  آئین کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے ہندوستانی غیرمعمولی تعداد میں سڑکوں پر ہیں۔مظاہرین میں سے ایک بھی بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آئےہندو، سکھ، عیسائی، بودھ، جین، پارسی پناہ گزینوں  کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہے۔ انہوں نے ایک آواز میں یہ اعلان  کیا ہے کہ مذہب شہریت کی  بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔

حکومت چاہے جو بھی کہے، شہریت ترمیم قانون  حقیقت میں یہی کرتا ہے۔وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ این آرسی– جو ہندوستانیوں کو ‘شہریوں’اور ‘مشکوک شہریوں’میں تقسیم کردےگا،اس پر ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔

ان کی یقین دہانی پارلیامنٹ کے اندر اور باہروزیر داخلہ کی جانب سے دیے گئے اس بیان کے بالکل برعکس ہے کہ این آرسی کی قواعد کو پورے ہندوستان میں 2024 تک شروع کر دیا جائےگا۔ اسی بیچ این پی آر کو پھر سے آگے بڑھایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اور کچھ نہیں این آرسی کے لیے اطلا عات جمع  کرنا ہے۔

Urdu-Editorial1

مدعایہ نہیں ہے کہ حکومت کے دو بڑے رہنماایک دوسرے کے برعکس  باتیں کر رہےہیں۔ نہ ہی اس مسئلے پر مودی کے لفظوں کو حتمی مانا جانا چاہیے۔ اس قدر اہمیت کی کسی پالیسی پر ایک واضح، مدلل اور مشورے کی روشنی میں قانونی خاکہ ملک کے سامنے رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔

لیکن اس کی جگہ یہ لگاتار اپنے ہی دعووں کو بدل رہی ہے، اس کو لےکر متضاد باتیں کر رہی ہے اور اس سے انکار کر رہی ہے۔ اس طرح سے اس نے صرف اپنی بدنیتی کو لےکر پھیلے ڈر کو پختہ کرنے کا ہی کام کیا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ڈسکورس کے طور پر ایک ملک گیراین آرسی کی تجویز کو رسمی طور پر واپس لےکر ہی ملک کو مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں اس بھیانک قواعد کو ہاتھ نہیں لگایا جائےگا۔

سول سوسائٹی اور عام لوگوں  کو یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاج  کی رفتار کم نہیں ہوئی ہے اور ملک کے مختلف  حصوں میں بالخصوص بی جے پی مقتدرہ ریاستوں – میں پولیس کے ذریعے کیے گئے تشددکے بعد بھی ہندوستانی شہری کو سڑک پر اترنے سے ہچک نہیں رہے۔

ان کی سب بڑی  مانگ ہے کہ سی اے اے  کی ترمیم کرکے ہندوستان کے پڑوس میں استحصال  کا سامنا کر رہے کسی بھی مصدقہ پناہ گزین  کو شہریت دینے کے اہتمام کو اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ معمولی سی ترمیم غیر ضروری طور پر نام لیےبغیر(اور دوسروں کو اس سے باہر کئےبغیر)بھی ان چھ کمیونٹی کے لوگوں کو فائدہ پہنچائےگا، جن کو لےکر سرکار فکرمند ہے۔

یہ حقیقت کہ مودی اور شاہ اس بنیادی دلیل کو سننے کو تیار نہیں ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد اس ملک کا پولرائزیشن مذہبی بنیاد پر کرنا اور ہندوستان کو ایک ‘ہندو راشٹر’ کی طرف لے جانا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

 جس طرح غیرقانونی طور پر لوگوں سے پرامن طریقے سے سرکار کے قدم کی مخالفت کرنے کا حق چھینا گیا ہے دفعہ144 کا غلط استعمال کیا گیا، لوگوں کو حراست میں لیا گیا، پٹائی کی گئی، انٹرنیٹ خدمات بند کی گئی  اس نے احتجاج کے دائرے کو اوربڑھا دیا ہے۔

اب  یہ صرف سی اے اے  اور این آرسی سے جڑا ہوا نہیں رہ گیا ہے۔ دراصل  لاٹھی اور گولیوں کا سامنا کر رہے، نعرے لگاتے، گیت گاتے اور پوری طاقت کے ساتھ سرکار کے خلاف آواز اٹھاتے ہزاروں لوگ اب آئین کے لیے، ہندوستان کے بنیادی اصولوں اور اپنے جمہوری حقوق  کے لیے لڑ رہے ہیں۔

آسام سے لےکر کیرل تک، ممبئی سے لےکر کولکاتہ تک، دہلی سے لےکر لکھنؤتک ،بنگلور، کاسرگوڈ، وجئےواڑا اور اورنگ  آباد تک، بوڑھے اور جوان، الگ الگ مذاہب اور کمیونٹی کے ہندوستانی سرکار کو یہ بتانے کے لیے سڑکوں پر اترے ہیں کہ وہ ہندوستان کی جمہوریت  کو روندنے کی بے شرم کوششوں کے خاموش تماشائی  نہیں ہیں۔

گزشتہ تقریباً چھ برسوں  میں یہ ملک لنچنگ، بڑھتی عدم رواداری  اور تنقید کا گلا گھونٹنے کی منظم کوششوں کا گواہ رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں  پر پہرہ بچھا دیا گیا ہے۔ اقلیتوں  کے حقوق  پر حملے ہو رہے ہیں۔

جس سنک بھرے طریقے سے کشمیر کے ساتھ لمبےوقت سے جاری سسٹم  کا خاتمہ کر دیا گیا اور وہاں کی پوری آبادی کا استحصال کیا گیا، اس نے دنیاکے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن مخالفت کی کچھ آوازوں کو چھوڑکر، ہندوستان  کے بہت سے لوگوں نے آواز نہیں اٹھائی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے اندر کا بیٹھا ہوا ڈر تھا۔

سی اے اے – این پی آر– این آر سی کے خطرے نے اس صورت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ،بی جے پی نجی طور پر اپنے حامیوں  سے یہ کہتی ہے کہ ان تینوں کے نشانے پر صرف مسلم ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پارٹی لوگوں سے ان کی شہریت ثابت کرنے پر زور دیتی ہے تو لاکھوں کروڑوں ہندوستانی شہریوں کی زندگی خطرےمیں پڑ جائےگی۔

آج کی تاریخ تک سرکار نے اس کے خاکے/پیمانوں کو لےکر فیصلہ نہیں کیا ہے، لیکن نوکر شاہی کی نااہلی، بدعنوانی اورضد کو دیکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر ‘غلطیوں’ کا ہونا طے ہے۔

لوگوں کے نام لکھنے کی اس قواعد سے آخرکار سامنے آنے والی ‘مشکوک شہریوں’ کی فہرست میں زیادہ ترنام غریبوں کے ہوں گے۔ اس پوری قواعد کے پیچھے کی منشا کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ متاثر اقلیت ہوں گے، لیکن حاشیے کے دوسرے طبقوں پر بھی خطرہ کم نہیں ہے۔

 سرکار کو عوام  کے مزاج کو پڑھنا چاہیے اور اپنے قدم پیچھے کھینچ لینے چاہیے۔ لوگوں کو اب غیرواضح یقین دہانی نہیں چاہیے۔

ان پی آر اور این آرسی کو پوری طرح سے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے اور سی اے اے  میں ترمیم کرکے اس کو ہندوستان  کے آئینی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق  بنانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔