اس وقت سنگھ کے علمبرداروں اور رہنماؤں کے احمقانہ بیانات کو تضحیک آمیز قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ کسی بھی دن یہ سرکاری پالیسی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
ہم کیسے مضحک کرداروں میں ڈھل گئے ہیں! اور ہم جس طرح کی متضاد دنیا میں محصور ہیں اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے کہ- ایک ٹی وی چینل دعویٰ کرتا ہے کہ جس ڈیم کی وجہ سےسیلاب آیا، اس کو آسام میں ‘
باڑھ جہاد‘ کے تحت مسلم دہشت گردوں نے توڑا تھا۔ ایک دوسرے میڈیا پرسن نے اسے ٹوئٹ کیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے او بی سی سوشل میڈیاکو چلانے والے
راہل ساگر نے اس کی تائید کی۔ اس کے بعد ڈیم توڑنے کے اس مبینہ معاملے میں حکومت نے چار مسلمانوں کو گرفتار کر لیا۔
قومی تعلیمی پالیسی پر کرناٹک کی ٹاسک فورس کے سربراہ مدن گوپال نے کہا کہ سیب کا نیوٹن کے سر پر گرنا اور پائتھاگورس (مسئلہ فیثا غورث)، یہ دونوں ہی ‘
فیک نیوز‘ ہیں- ہمارے اساطیری عہد میں اس کے بارے میں حد درجہ معلومات تھیں۔ یعنی ہندوؤں کو پہلے ہی اس کا علم ہو چکا تھا۔ انہیں یہ جانکاری کورا ویب سائٹ سے حاصل ہوئی، ایسے میں فطری طور پر اس بات کے سو فیصدی درست ہونےمیں کیا شک باقی رہ جاتا ہے! اب ریاستی حکومت نے اس خیال کی پیروی کرتے ہوئےمرکز کے سامنے اپنا موقف پیش کر دیا ہے۔
دریں اثنا، لوک سبھا سکریٹریٹ نے ‘وشواس گھات،نکمہ، بھرشٹ’ اور ‘پاکھنڈ’ جیسے لفظوں کو
غیر پارلیامانی قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگا دی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس سے متفق ہیں اور ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔
وہاٹس ایپ ڈگری ہولڈرز اطمینان سےیہ کہہ دیں گے کہ وہاٹس ایپ فارورڈ ان تاریخی دعووں کی صداقت کو ثابت کرتا ہے۔ ان دنوں ویدک دور کی سائنسی ایجادات بہت مقبول ہیں۔
یہ سب کچھ پچھلے چند دنوں میں ہی پیش آیا ہے۔ حکومت یا پارٹی کے عہدیداروں کے لب لعلیں سے جھڑنے والے بیان یا ان کے تائیدی پھوہڑ پنے کے اس سیلاب کی تاریخ کہیں پیچھے کی طرف جاتی ہے – کم از کم 2014 تک، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کے ایک اجتماع میں کہا تھاکہ گنیش پر ہاتھی کا سر ہونا اور کرن کی پیدائش یہ ثابت کرتی ہے کہ صدیوں پہلے ہندوستان میں
جینیاتی انجینئرنگ اور کاسمیٹک سرجری کی جا رہی تھی۔
بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ اور ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ستیہ پال ملک نے
ڈارون کے نظریات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ وہ بندروں کی اولاد نہیں ہیں۔ یقینی طور پربیماریوں کے علاج کے معاملے میں ‘موتر تھراپی’ (پیشاب) کی برتری سنگھ پریوار کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک وزیر نے اس سال کے شروع میں نریندر مودی کو
رام کا اوتار بتایا تھا۔
ان تمام بیانات کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے ان پر ہنسی آسکتی ہے۔ ان دعووں پر ہزاروں میم بن چکے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے دعوے پالیسی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور جوبات احمقانہ لگتی ہے وہ جلد ہی ایک خوفناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کو مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کے ایک وزیر کے بیٹے کی شکایت پر اس لطیفے کے لیے گرفتار کیا گیا جو انہوں نے
پیش ہی نہیں کیا تھا۔ اورہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جاری فرقہ وارانہ مہم کے
المناک نتائج برآمد ہوئے ہیں اور بعض اوقات یہ صرف اس کمیونٹی تک ہی محدود نہیں رہے ہیں، اور اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ ساتھ ‘
گجرات کو دہرانے‘ کی بات بھی سامنےآتی رہتی ہے۔
سن 1930 کی دہائی میں امریکی مصنفہ کلارا لیزر نے سیاسی قیدیوں کے اہل خانہ سے بات کرنے کے لیے کئی بار جرمنی کا سفر کیا۔ ان مکالموں پر مبنی اخباری مضامین کے علاوہ انہوں نے ایک کتاب بھی شائع کی جس کا عنوان تھا ‘
لونیسی بکمس اس‘۔ یہ نازی رہنماؤں، ان کے پیروکاروں، جن میں صحافی حضرات بھی شامل ہیں، کے احمقانہ بیانات کا مجموعہ ہے۔
کتاب کا آغاز ریخ اسٹیگ کے ایک ایک رکن اور اینٹی سیمیٹک اخبار کے پبلشرجولیس اسٹریکر کے ایک قول سے ہوتا ہے، یہ قول ہمیں مانوس لگ سکتا ہے – ‘دی گریس آف گاڈ اٹینڈس آور فیوہرر’۔ عورت کے فرائض سے لے کر حکمراں نسل بنانے تک کی حکمت عملی اس کتاب کے مندرجات ہیں۔
ڈاکٹر ولیبالڈ ہینسل مشورہ دیتے ہیں کہ، ‘ایک ہزار خالص ترین نسل کی جرمن لڑکیوں کو اکٹھا کریں۔ انہیں کیمپ میں الگ تھلگ کرکےرکھیں۔ ان کا وصل اتنے ہی خالص نسل کے جرمن مردوں سے ہونے دیں۔ اگر اس طرح کے ایک سو کیمپ بنائے جاتے ہیں تو ہمارے پاس ایک لمحے میں بہترین نسل کے لاکھوں بچے ہوں گے۔’ ایک پرچے میں کہا گیا، ‘یسوع اپنے والدین کے دونوں طرف سےآریائی تھے۔’ بدنام زمانہ ڈاکٹر گوئبلز نے کہا،’دانشورانہ سرگرمی کردار سازی کی راہ میں خطرہ ہے۔’
جیسا کہ ہم اب جانتے ہیں،یہ سب انسانی تاریخ کےسب سےالمناک دور کا باعث بنا۔ ایڈولف ہٹلر کی مسلسل معبودیت (کبریائی) اور یہودیوں، دانشوروں اور دیگر کی شیطانیت کے نتیجے میں ہولوکاسٹ ہوا۔
ہندوستان میں ابھی مسلمانوں کو گیس چیمبروں میں بھیجنےجیسی صورت حال دور دور تک نہیں ہے، جیسا کہ نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن اس سے بہت پہلے ان کے خلاف ایک منظم مہم – ان کے کاروبار کو بند کرنا اور یہود مخالف قوانین کا نفاذ – نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا کہ جب حراستی کیمپ بنائے گئے اور کمزور شکاروں کو گیس چیمبروں میں لے جایا گیا، تب تک وہ ایسے ولن بنائے جا چکے تھے جن کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی تھی۔
آج ہندوستان میں یہ تصور عام ہے کہ مسلمان ‘ملک دشمن’ اور غدار ہیں۔ یہ تصورنہ صرف سنگھ کے کٹر پیروکار، جن کے ذہن سالوں سے اس طرح کی باتوں سے بھرے ہوئے ہیں، بلکہ نئے پیروکاروں – شہری، تعلیم یافتہ اور مراعات یافتہ افراد نے بھی اسے تسلیم کرلیا ہے۔ ان کے فرقہ وارانہ جذبات کو مطمئن کر دیا گیا ہے اور کچھ بھی ہو جائے وہ آواز اٹھانے والے نہیں ہیں؛ وہ سنگھ پریوار کے جھوٹے تاریخی دعووں کو نظر اندازکرنے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ ان کے سیاہ ترین تعصبات، جو طویل عرصے سے چھپے ہوئے ہیں،ان کو اب آزادانہ اظہار کی راہیں مل گئی ہیں۔
کسی بھی جمہوریت میں ان نفرت کرنے والوں اور مشتبہ قاتلوں کو مستعدی کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا ہوتا، لیکن یہاں انہیں نہ صرف کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے بلکہ ان کی
عزت افزائی بھی کی جاتی ہے۔ ان کو ملی یہ معافی اتفاق نہیں ہے۔ ان کی بالواسطہ حمایت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ ممنوعہ باتیں کہتے ہیں، حالاں کہ یہ غیر قانونی اور بری ہوتی ہیں۔
اس معاملے میں یوگی آدتیہ ناتھ نریندر مودی سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں، لیکن کئی چیزیں ہیں جو وہ بھی نہیں کہہ سکتے اور کر بھی نہیں سکتے۔ انہیں ‘فرنج عناصر’ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ تمام حدیں پار کرتے ہیں اور حکومت کو یہ دکھانے کے لیے اقدامات کرنے پڑتے ہیں کہ وہ اسے برداشت نہیں کرے گی۔ مثال کے طور پر جب یتی نرسنہانند نے
مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی۔ لیکن اکثر مواقع پر وہ ان باتوں سےاپنی نظریں پھیر لیتے ہیں۔
جہاں ایک طرف اقلیتوں کے خلاف بیان بازی کے علاوہ تشدد کی اپیل کی جاتی ہے تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے ان کے خلاف قانون بھی بنائے جا رہے ہیں۔ کسی زمانے میں آزاد رہے ادارے قانونی ڈھال فراہم کر رہے ہیں۔ گود میں بیٹھامیڈیا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کررہا ہے کہ عوام تک یہ پیغام پہنچے کہ مسلمان دشمن نمبر ایک ہیں۔
جب ایسا ہوتا ہے، تب حماقت اور شرپسندی کے درمیان کی لکیریں بہت باریک ہو جاتی ہیں اور آخرکار ختم ہو جاتی ہیں۔ پھر کوئی بھی مختلف رائے رکھنے والا دشمن بن جاتا ہے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)