ہندوستانی سیاست کے ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پرملیکارجن کھڑگے نے ‘انڈیا’ اتحاد کے درمیانی فاصلے کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ اس نوع کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو کھڑگے کے حق میں جاتی ہیں۔
‘انڈیا’ اتحاد کی بیٹھک میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے ساتھ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے۔ (تصویر بہ شکریہ: INC.IN)
حالیہ دنوں میں سیاسی مبصرین نے کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملیکارجن کھڑگے کی موجودگی میں کانگریس ایم پی راہل گاندھی کے ہاؤ بھاؤاور باڈی لینگویج پر خصوصی طور پر توجہ مبذول کی ہے۔ راہل واضح طور پر 81 سالہ کانگریس کے اس سرکردہ لیڈر کے لیےاحترام اور عقیدت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
کچھ دن پہلے، راہل کرناٹک میں ایک تقریب کے دوران کانگریس صدر کے بغل میں بیٹھے تھے، اور انہوں نے خود سےکھڑگے کو گلاس میں پانی پیش کیا تھا۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں نے اس بارے میں ٹوئٹ بھی کیا تھا۔ ایک اور موقع پر راہل پارٹی کی ایک میٹنگ کے بعد کھڑگے کو اپنی گاڑی سے چھوڑنے گئے تھے۔
یہ مثالیں صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے ہیں کہ راہل گاندھی اور ملیکارجن کھڑگے کے درمیان ایک خاص طرح کا رشتہ قائم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ راہل نے عوامی طور پر کانگریس کے کسی اور سرکردہ لیڈر کے لیے اتنا احترام اور محبت کا جذبہ ظاہر نہیں کیا ہے ۔ ‘انڈیا’ اتحاد کے حوالے سے ان باتوں کی سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہندوستانی سیاست کے ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پر کھڑگے نے ‘انڈیا’ اتحاد کے اندر کی دراڑوں کو بھرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی اظہر من الشمس ہے۔
اس نوع کی اور بھی باتیں ہیں جو کھڑگے کے حق میں جاتی ہیں۔ وہ جنوب سے تعلق رکھنے والے دلت رہنما ہیں اور شمالی ہند کے ہندی بیلٹ، جہاں پہچان کی سیاست میں دشمنی حاوی رہتی ہے، وہ کاسٹ بیسڈ لیڈروں کو کسی بھی طرح ستخوفزدہ نہیں کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی لوک سبھا میں فیصلہ کن مینڈیٹ کا فقدان ہوتا ہے، تو جنوب سے ایک ایسا ہی لیڈر جو شمال کو خوفزدہ نہیں کرتا، غیر بی جے پی اتحاد میں متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یقیناً، اس کا اطلاق بی جے پی کی قیادت والے اتحاد پر نہیں ہوتا، کیونکہ یہ بڑی حد تک شمالی ہند کی پارٹی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 1991 میں پی وی نرسمہا راؤ متفقہ طور پر وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر اس وقت سامنے آئے تھے، جب کانگریس اکثریت سے پیچھے رہ گئی تھی۔ کانگریس کے پاس شمال سے تعلق رکھنے والے اور بھی طاقتور لیڈر تھے، لیکن نسبتاً لو–پروفائل والے نرسمہا راؤ متفقہ طور پرامیدوار بنے۔ ایچ ڈی دیوے گوڑا کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے، جنہیں لالو پرساد یادو اور ملائم سنگھ یادو دونوں نے متحدہ محاذ اتحاد کی قیادت کے لیے اپنی حمایت دی تھی۔ ان میں سے کسی بھی رہنما نے اتحاد کے سیاسی مساوات کو کسی بھی طرح سے خطرے میں نہیں ڈالا۔
اسی تناظر میں کھڑگے کی اہمیت کو نشان زد کیا جا نا چاہیے کیونکہ ‘انڈیا’ اتحاد 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے جا رہا ہے۔ اور اگر کانگریس کا معاملہ 100 سیٹوں سے اوپر جاتا ہے تو 2024 کے لوک سبھا انتخابات حیران کن ہوسکتے ہیں۔
لیکن سال 2024، 2019 نہیں ہےاور بھلے ہی’انڈیا’ اتحاد کے پاس کوئی متبادل پی ایم امیدوار ہے نہ ہو، وزیر اعظم نریندر مودی کو لوگ یقینی طور پران کی 10 سالہ کارکردگی کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ سال 2019 میں رائے دہندگان مودی کو مزید پانچ سال دینا چاہتے تھے۔ لیکن اس بار مودی کے بہت سے ووٹریہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایک لیڈر کے لیے نتائج دینے کے لیے 10 سال لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد شور شرابے والی ہندوتوا مہم کے باوجود ان نتائج کو تلاش کرے گی۔
لہٰذا ملک بھر میں سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ، اگر یہ الیکشن خالصتاً مودی کی 10 سالہ حکمرانی پر ریفرنڈم ہے، اور انہوں نے معاشی اور سماجی بہبود کے لیے ٹھوس طریقے سے کیا اقدام کیے ہیں ، اس کی بات اٹھتی ہے، تو ‘انڈیا’ ان کو ٹکر دے سکتا ہے۔ بی جے پی میں واضح طور پر کچھ گھبراہٹ ہے – اس لیے مایوس اور بے تاب وزیر اعظم ادھوری سرکاری آسامیوں اور داخلی پرموشن کو نئی نوکری کے طور پر پیش کرتے نظر آرہے ہیں!
اس لیے ‘انڈیا’ اتحاد کو وزیر اعظم کے طور پر کوئی امیدوار پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ اگر کانگریس تقریباً 110-120 سیٹوں کے ساتھ اتحاد میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے، تو کھڑگے ممکنہ اتحاد کے ایک متفقہ امیدوار کےطور پر ابھر سکتے ہیں۔ راہل گاندھی اس امکان کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہوئےنظر آرہے ہیں۔ اس سے راہل شاید یہ اشارہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ اتحاد کی قیادت کرنے کی دوڑ سے پوری طرح سے باہر ہیں۔
نوجوان گاندھی نے ہمیشہ سب سےپرانی پارٹی کو کچھ تازگی اور نئی توانائی فراہم کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد دلت قیادت تیار کرنے کا تصور کیا ہے۔ کھڑگے ان کےاس تصور میں بالکل فٹ بیٹھتے ہیں۔ مزید برآں، ’انڈیا‘ اتحاد کے دیگر جماعتوں حتیٰ کہ مایاوتی جیسےکسی باہری لیڈرکے لیےبھی انتخابات کے بعد اتحاد کے لیڈر کے طور پر کھڑگے کی مخالفت کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اگلے سات ماہ دلچسپ امکانات پیدا کر سکتے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)