میگزین کے اس نئے سرورق پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ میگزین نے شہریت قانون اور این آر سی کو لےکر ہندوستان میں ہو رہے احتجاج اور مظاہرے کے تناظرمیں مودی حکومت کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دراصل سرورق پرخاردار تاروں کے بیچ بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخابی نشان ‘کمل ‘ موجود ہے اور اس کے اوپریہ عبارت درج ہے، ’متعصب ہندوستان ، کیسے مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کوخطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
فوٹو بہ شکریہ، دی اکانومسٹ /ٹوئٹر:@TheEconomist
نئی دہلی:معروف عالمی جریدہ دی اکانومسٹ نے اپنی کور اسٹوری میں شہریت ترمیم قانون سمیت کئی مدعوں کو لے کرمرکز کی نریندر مودی حکومت پر ملک میں بٹوارے کا سنگین الزام لگایا ہے۔مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ،گزشتہ مہینے ہندوستان نے شہریت قانون میں ترمیم کرکے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے استحصال کا شکار ہوکر ہندوستان آنے والے لوگوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ، بی جے پی حکومت تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک رجسٹر بنانا چاہتی ہے، جس میں 1.3 ارب ہندوستانیوں کے ڈاٹا کو شامل کیا جائےگا اور غیر قانونی پناہ گزینوں کی پہچان کی جائےگی۔
میگزین کے مطابق، ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کاغذات ہی نہیں ہیں ، اس لیے وہ خوف زدہ ہیں اور اس ڈر میں جی رہے ہیں کہ ان کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔ دی اکانومسٹ نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ حکومت نے ڈٹینشن کیمپ بنانے کے حکم دیے ہیں۔
وہیں میگزین کے اس نئے سرورق پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ میگزین نے شہریت قانون اور این آر سی کو لےکر ہندوستان میں ہو رہے احتجاج اور مظاہرے کے تناظرمیں مودی حکومت کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دراصل سرورق پرخاردار تاروں کے بیچ بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخابی نشان ‘کمل ‘ موجود ہے اور اس کے اوپریہ عبارت درج ہے، متعصب ہندوستان ، کیسے مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کوخطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اس میں لکھا گیا ہے کہ ، وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش ہے کہ ہندوستان کو سیکولر ملک کے بجائے کو ہندو راشٹر بنایا جائے۔ اس مضمون میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور 2002 میں ہوئے گجرات دنگوں کے لیے بھی بی جے پی حکومت پرالزام لگائے گئے ہیں۔مضمون کے مطابق، مودی حکومت ملک کے آئینی اصولوں کو کمزور کر رہی ہے جس کا خمیازہ ہندوستان کی جمہوریت کو دہائیوں تک بھگتناپڑےگا۔ د ی اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کے قدم سے تشدد کا بھی امکان ہے، حالاں کہ مذہب اورقومیت کی سیاست کی بنیاد پر تقسیم کی اس کوشش سے بی جے پی کو فائدہ مل سکتا ہے۔
مضمون میں مذکور ہے کہ ،دراصل اس کا اثر یہ ہوگا کہ اس سے بی جے پی کے کارکنوں اور اتحادی پارٹیوں کو توانائی ملتی رہےگی اور وہ ملک کی عوام کی توجہ اہم مدعوں ،مثلاً؛ معیشت وغیرہ سے ہٹا سکیں گے۔
دی اکانومسٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ، پی ایم مودی لوگوں میں ڈر پیدا کرکے اقتدار میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ اس میں جموں وکشمیر اور دلتوں کا بھی مدعا اٹھایا گیا ہے اور سرکار کو تنقید کا نشانہ بنا یا گیا ہے۔ اس میں پی ایم مودی پر الزام ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کی اصولوں کو پامال کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ماب لنچنگ کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کو لگتا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کو اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں، لیکن ایسا کرنا ان کے لیے سہل نہیں ہوگا۔
دی اکانومسٹ کا یہ شمارہ 25 جنوری کو بازار میں آئےگا، لیکن میگزین نے اس کاسرورق ٹوئٹ کیاہے ، اس کا ٹائٹل ہے انٹالرینٹ انڈیا یعنی متعصب ہندوستان ۔ میگزین میں مضمون کا عنوان ہے ؛’نریندر مودی دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت میں بٹوارے کو بھڑکا رہے ہیں۔’ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں میں خوف ہے کہ وزیر اعظم ایک ہندو راشٹر بنا رہے ہیں۔
میگزین میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کو مارنے والےشر پسند عناصروں کو اہمیت دینے سے لےکر کشمیر گھاٹی میں میں رہنے والوں کے لیےسزا جیسا ماحول بنایا۔ انہیں من مانے طریقے سے گرفتار کیا گیا، کرفیو لگایا اور 5 مہینے تک انٹرنیٹ بند رکھا گیا۔ شہریت قانون معاملے کو لانا بھی بی جے پی کا اسی طرح کا نیاکاکارنامہ ہے۔مضمون میں وارننگ دی گئی ہے کہ ایک کمیونٹی کامسلسل استحصال سب کے لیے خطرہ ہے اور اس سے سیاسی نظام بھی بحران میں آسکتا ہے۔ جان بوجھ کر ہندوؤں کو بھڑ کاکر اور مسلمانوں کو ناراض کر کے بی جے پی ملک میں خونی تشدد کا ماحول بنا رہی ہے۔
دی اکانومسٹ نے جمعرات کوسرورق ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ‘کیسے ہندوستان کے وزیر اعظم اور ان کی پارٹی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔’اس مضمون میں 80 کی دہائی میں رام مندر کے لیے تحریک کے ساتھ بی جے پی کی شروعات پر بات کرتے ہوئے دلیل دی گئی ہے کہ ممکنہ طور پر نریندر مودی اور بی جے پی کو مذہب اور قومیت کی پہچان کی بنیاد پرمبینہ بٹوارے سے فائدہ پہنچا ہے۔
این آر سی کو لے کر اس میں کہا گیا ہے کہ ،غیر قانونی پناہ گزینوں کی پہچان کرتے ہوئے اصل ہندوستانیوں کے لیے رجسٹر تیار کرنے کی کارروائی سے 130 کروڑ عوام متاثر ہوگی ۔ یہ کارروائی کئی سال تک جاری رہے گی ۔ فہرست تیار ہونے کے بعد اس کو چیلنج دینے اور پھر سے درست کرنے کا بھی سلسلہ چلےگا۔ میگزین نے لکھا ہے کہ اس طرح کے مدعوں کو آگے کر کے دوسرے مدعوں سے دھیان بھٹکایا جا رہا ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ ،بی جے پی کی جیت کے بعد سے ہی ہندوستان کی معیشت بحران سے گزر رہی ہے۔
بتادیں کہ ، کئی بی جے پی رہنماؤں نے ٹوئٹ کرکے میگزین کے سرورق کی مذمت کی ہے۔قابل ذکر ہے کہ دی اکانومسٹ گروپ کی اکانومک انٹلی جنس یونٹ نے ہی اسی ہفتے ‘
گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس‘کی فہرست جاری کی تھی۔ اس فہرست میں ہندوستان 10 پائیدان نیچے گرکر 51ویں مقام پر آ گیا ہے۔