مہاراشٹر کے بوریولی-پڑگھا گاؤں کے رہنے والے اور دہشت گردی کے ملزم ثاقب ناچن 2023 کے اواخر سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ 22 جون کو وہ جیل میں اچانک بے ہوش ہوگئے۔ ان کے وکیل نے کہا کہ اس کے بعد ان کی موت کی ‘جھوٹی’ خبر ان کے گاؤں میں پھیلائی گئی۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Tum Hufner/Unsplash)
ممبئی: بھیونڈی تعلقہ کے بوریولی-پڑگھا گاؤں کی متنازعہ شخصیت ثاقب ناچن 2023 کے اواخر سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ اتوار (22 جون) کو وہ وہیں اچانک گر پڑے۔
ناچن، جن کے خلاف ممبئی میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں کئی مقدمات درج ہیں اور دہشت گردی کے کئی مقدمے چلے اور انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا ہے، اس وقت مہاراشٹر میں ممنوعہ آئی ایس آئی ایس ماڈیول کی مبینہ طور پر قیادت کرنے کے لیے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ ان کے بے ہوش ہونے کی وجہ سے انہیں برین ہیمرج ہوا اور اس کے بعد سے وہ بے ہوش ہیں۔ ان کے وکیل سمشیر انصاری کے مطابق، ناچن تہاڑ جیل نمبر 1 کے اندر اپنے سیل میں بیہوش ہو گئے۔
انصاری نے دی وائر کو بتایا، ‘بیرک میں ان کےساتھ رہنے والے ایک قیدی نے ان کے خاندان کو اطلاع دی، جو اس کے بعد دہلی پہنچے۔’
انصاری، جو ممبئی اور دہلی دونوں جگہوں پر پریکٹس کرتے ہیں اور طویل عرصے سے ناچن کے کیس کی پیروی کر رہے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دہلی پہنچے کہ ناچن کو مناسب طبی دیکھ بھال ملے۔ انصاری نے بتایا کہ گرنے کے بعد سے ناچن بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔ انہیں پہلے سرکاری دین دیال اپادھیائے (ڈی ڈی یو) اسپتال لے جایا گیا۔
انصاری نے کہا، ‘ان کے اہل خانہ کی جانب سے میں نے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انہیں بہتر سہولیات والے اسپتال منتقل کیا جائے۔ تاہم، عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی، ڈی ڈی یو اسپتال کے ڈاکٹروں نے ناچن کو صفدر جنگ اسپتال ریفر کردیا۔ ان کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔’
ناچن کی موت کی جھوٹی خبر سے کے گاؤں میں کشیدگی
دریں اثنا، ناچن کی خراب صحت کی خبر پھیلتے ہی کئی نیوز چینلوں نے ان کی موت کی جھوٹی خبر دی۔ اس سے اس کے گاؤں میں تناؤ پیدا ہوگیا، جو پہلے ہی اکثر
چھاپوں اور جرائم کی بلند شرح کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے ۔
انصاری نے کہا، ‘
این ڈی ٹی وی سمیت کئی نیوز چینلوں نے دعویٰ کیا کہ ناچن کی موت ہوگئی ہے۔ مجھے گاؤں سے میڈیکل اپڈیٹس کے لیے 100 سے زیادہ فون آئے۔ یہ خبر بالکل جھوٹی ہے اور اس کا مقصد ان کے گاؤں میں کشیدگی پیدا کرنا ہے۔’
دی وائر کو مقامی لوگوں نے بتایا کہ شام سے ہی گاؤں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ایک رہائشی نے کہا، ’ ہم حیران ہیں کہ حکومت کو گاؤں میں اتنے سارے پولیس اہلکار تعینات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔’
انصاری نے دعویٰ کیا کہ جھوٹی خبریں اور اس کے بعد پولیس کی تعیناتی ‘جان بوجھ کر’ کی گئی ہیں۔
ناچن، جو تقریباً چار دہائیوں سے ریاستی اور مرکزی حکومت کی پولیس کے ساتھ تنازعات میں ہیں، کبھی اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) کا حصہ تھے، جس پر 2001 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔انہیں متنازعہ بیان دینے کے لیے جانا جاتا ہے اور این آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے گاؤں کو ایک آزاد اسٹیٹ قرار دیا ہے – جسے مقامی لوگوں نے خارج کر دیا ہے۔
ان کے گاؤں میں، جہاں کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے، ان کی گرفتاری یا حراست کی وجہ سے اکثر پولیس ان کے رشتہ دار یا قریبی نوجوانوں کو پریشان کرتی ہے۔ سال 2023 میں ان کے چھوٹے بیٹے شمیل کو 13 دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
اس ماہ کے شروع میں دی وائر نے مقامی ضلع پولیس کے ساتھ مشترکہ طور پر مہاراشٹرا انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے رات گئے چھاپوں کے بعد
گاؤں کا دورہ کیا تھا، جس کے دوران 22 سے زیادہ گھروں کی تلاشی لی گئی تھی۔
اہل خانہ نے پولیس کی جانب سے نوجوانوں اور بوڑھوں کو’ ڈرانے’ والےتجربات بیان کیے، اور دعویٰ کیا کہ پولیس کو کچھ بھی نہیں ملا۔
اگرچہ یہ چھاپہ عدالت کی اجازت سے مارا گیا تھا، لیکن اے ٹی ایس نے ایک ‘تلوار’ اور ایک ‘چاقو’ ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے اس نے ‘مہلک ہتھیار’ قرار دیا ہے۔ تاہم، گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ تلوار زنگ آلود تھی اور برسوں سے استعمال نہیں ہوئی تھی، اور چاقو باورچی خانے کا ایک عام چاقو تھا۔
ناچن کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا اور ان کے دوسرے بیٹے عاقب کےنام وارنٹ جاری کیا گیا۔
جب سے ناچن کی خراب صحت کی خبر ان کے خاندان تک پہنچی ہے، تب سے عاقب دہلی میں اپنے والد کے لیے مناسب طبی دیکھ بھال کی تلاش میں ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)