چنئی میں گزشتہ کچھ مہینوں سے جاری پانی کی کمی کے سبب لوگ بےحال ہیں ۔ آئی ٹی کمپنیوں نے ملازمین سے گھر سے کام کرنے کو کہا، ہوٹل نے دوپہر کا کھانا بند کر دیا ہے، کئی نے اپنے کام کے گھنٹے بھی گھٹائے ہیں۔
چنئی میں پانی لینے جاتی ایک بزرگ خاتون (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
شدید گرمی کے درمیان ملک کے کئی حصوں میں پانی کی قلت ہے۔ تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں بھی لوگوں کو آبی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے پانی کی کمی کا سامنا کر رہے چنئی میں نہ صرف پانی بھرنے اور جمع کرنے کے لئے تشددکے واقعات سامنے آرہے ہیں بلکہ شہر کے ہوٹل، مال اور دیگر تجارتی مقامات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔چنئی کے ایک نواحی شہر میں تمل ناڈو اسمبلی کے اسپیکر پی دھن پال کے ڈرائیور رام کرشنن کو گزشتہ جمعرات ان کی پڑوسی سہاسنی پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بتایا گیا کہ رام کرشنن نے سہاسنی کے شوہر کو پانی بھرنے کے لئے موٹر چلانے سے روکا تھا۔
اس بات پر رام کرشنن نے ایک نکیلے ہتھیار سے سہاسنی پر حملہ کر دیا۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ سہاسنی چنئی کے ایک ہاسپٹل میں ہیں اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ شہر میں شدید آبی بحران کی ایک مثال محض ہے۔ مانسون کے انتظار میں چنئی گزشتہ دو ہفتوں سے پانی کی خوفناک کمی سے جدوجہد کر رہا ہے۔حال یہ ہے کہ اب شہر کی کئی آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے گھر سے کام کرنے کو کہا ہے، ہوٹل-ریستوراں میں کام کے گھنٹے کم کر دئے گئے ہیں، مقامی باشندےپانی کے ٹینکر بک کرنے کے لئے جدوجہد کر تے نظر آ رہے ہیں، وہیں ریاستی حکومت غیر قانونی طور پر پانی بھرنے کے لئے گھروں سے پانی کے کنیکشن کاٹ رہی ہے۔
نجی ٹینکروں کا سہارا
مئی کے آخری ہفتے میں آئی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی-بھاشا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گلی-محلوں میں پانی- ٹینکروں کے آنے پر پانی بھرنے کے لئے برتن کو لےکر دوڑتے لوگ، قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتی خواتین اور گھروں میں سوکھے پڑے نل، یہ نظارہ چنئی میں عام ہو گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک رہائشی ایسوسی ایشن کے ممبر رویندرناتھ نے بتایا تھا کہ ان کو پانی کے لئےنجی ٹینکروں کا سہارا لینا پڑرہا ہے کیونکہ سرکاری ٹینکروں کو دو سے تین ہفتے لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نجی ٹینکرکے مالکان نے قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اور فی ٹرک پانی کے لئے 3000 سے 5000 روپے کا مطالبہکر رہے ہیں۔
واضح ہو کہ 2017 کے شمال مشرقی مانسون کے دوران کم بارش ہونے اور 2018 میں بھی مانسون کی بھاری کمی کی وجہ سے زمین کے اندر پانی میں کمی آئی ہے اور چیمبرمبکّم جھیل جیسے کئی اہم آبی یونٹ سوکھنے کے قریب ہے۔ اس کے سبب لوگوں کو اب پانی ٹینکر کے مالک پر منحصر ہونا پڑ رہا ہے، جس کے سہارے وہ اپنا روزمرہ کا کام چلا رہے ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق چنئی کی پورور جھیل شہر کے پانی کا اہم ماخذ ہے جو اس وقت اپنی سب سےکم سطح پر ہے۔ شہر میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے چنئی میٹروپولیٹن واٹر سپلائی اور سیوریج بورڈ اختیاری ماخذ، جس میں کانچی پورم ضلع کے کھارے پانی کو استعمال کے لائق بنانے والے پلانٹ اور پتھر کے کان ہیں۔
وہیں پانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے گزشتہ ہفتہ مدراس ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے اس بارے میں رپورٹ مانگی ہے۔ عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ اس نے اس بارے میں کیا قدم اٹھائے ہیں، اس بارے میں عدالت کو بتائے۔
چیمبرمبکّم جھیل (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
ہوٹل میں کیلے کے پتوں پر کھلایاجا رہا ہے کھانا
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق آبی بحران کے سبب شہر کے کچھ ہوٹل نے دوپہر کا کھانا دینا بند کر دیا ہے، جس سے پانی کا کم سے کم استعمال ہو۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ کچھ ہفتوں میں ہوٹل کے پانی پر ہونے والا خرچ 25 فیصد بڑھ گیا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے کئی ہوٹل میں ٹنکی کی جگہ مگ اور بالٹی سے پانی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔کئی ریستوراں کے صلاح کار جی چارلس وسنت کمار نے بتایا کہ ہوٹل نے پروڈکشن کم کر دیا ہے اور کئی نے اپنے کام کے گھنٹے بھی گھٹا دئے ہیں۔ وہیں چنئی ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر ایم روی نے بتایا کہ زیادہ تر ہوٹل نے اسٹیل کی تھالیوں کے بجائے کیلے کے پتوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا،’پانی بچانے کے لئے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہاتھ دھونے کے لئے بالٹی کی بجائے فنگر باؤل دئے جائیں۔ 100 سیٹوں تک کی صلاحیت والے ایک ہوٹل کو روزانہ 12 لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ سپلائی آنے میں بہت وقت لگ رہا ہے۔ ‘تمل ناڈو ہوٹلس ایسوسی ایشن نے ا س کے ممبروں کو رین واٹر ہارویسٹنگ کا انتظام کرنے کی صلاح دی ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر ایم وینکٹسبو نے کہا کہ کئی ہوٹل پینے کا پانی بچانے کے لئے آنے والے مہمان کو آدھا گلاس پانی دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘کیلے کے پتے بھی مہنگے ہو چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پانی پر ہونے والا خرچ 50 فیصد بڑھ سکتا ہے۔ ہم حکومت کے سامنے اور کھارے پانی کو استعمال کے لائق بنانے والے پلانٹ قائم کرنے کی تجویز لانے کی سوچ رہے ہیں۔ ‘
ہاسپٹل بھی ہیں متاثر
پانی کی کمی سے شہر کے ہاسپٹل بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے
دی ہندو کو بتایا،’کئی پرائیویٹ ہاسپٹل کے پاس اپنے آر او پلانٹ ہیں۔ ہم نے پانی کے استعمال کو کم کیا ہے، جیسے آپریشن تھیٹر میں ہم دو کے بجائے ایک ٹیپ کا ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ‘پاروتی ہاسپٹل کے سی ای او سجیت سمبامورتی نے اپنے پریس ریلیز میں بتایا کہ وہ یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ مریضوں کے لئے پانی کی کوئی کمی نہ ہو پائے۔ آپریشن تھیٹر بھی اس طرح سے تیار ہونا چاہیے کہ سرجری کے لئے کافی پانی ہو۔
آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق ہاسپٹل پانی بچانے کے لئے کم ضروری سرجری کو آگے کے لئے ٹال رہے ہیں۔ ایک گیسٹرو سرجن نے بتایا،’3 بیڈ والے ایک آپریشن تھیٹر کو اکیلے روزانہ 6000 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو ہم مریضوں کو صلاح دے رہے ہیں کہ اگر ان کی سرجری نان-ایمرجنسی ہے، تو وہ اس کو آگے کے لئے ٹال دیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ مریض ہاسپٹل میں بستر پر ہی پڑے رہیں اور اچانک پھر باتھ روم جائیں اور وہاں پانی نہ ملے۔ ‘
پانی بھرنے کے لئے کھڑے مقامی لوگ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
آئی ٹی کمپنیوں کے ملازم گھر سےکے رہے ہیں کام
آئی ٹی کا ہب مانے جانے والے اس شہر میں آئی ٹی کمپنیاں بھی پانی بچانے کی مہم میں لگی ہیں۔ خبروں کے مطابق ڈھیروں آئی ٹی ملازم اب گھر سے کام کر رہے ہیں۔ایک آئی ٹی پیشہ ور وشنوپریا نے
انڈیا ٹوڈے کو بتایا،’قریب دو ہفتوں سے ہم روٹیشنل سسٹم میں کام کر رہے ہیں، ہمارے پاس گھر سے کام کرنے کا اختیار ہے۔ ‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پانی کی کمی کے سبب ان کے دفتر میں ہر منزل پر باتھ روم کام نہیں کر رہے تھے، ایک منزل چھوڑکر باتھ روم میں پانی کی سپلائی ہو رہی تھی۔
اولڈ مہابلی پورم شہر آئی ٹی کمپنیوں کا گڑھ ہے۔ رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ یہاں روزانہ ملنے والے 3 کروڑ لیٹر پانی کا 60 فیصد آئی ٹی کمپنیوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریباً سو دنوں سے چل رہی پانی کی کمی کے سبب چنئی کی آئی ٹی کمپنیوں نے تقریباًپانچ ہزار ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی ہے۔
‘ حالت اتنی خراب بھی نہیں، جتنا کہا جا رہا ہے ‘
اس بیچ چنئی میٹروپولیٹن واٹر سپلائی اور سیوریج بورڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر ٹی این ہری ہرن نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ حالت اتنی خراب نہیں، جتنا دکھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چنئی میٹرو واٹر سے روزانہ 830 ملین لیٹر پانی کی باقاعدہ سپلائی کی جاتی ہے، جو اب 525 لیٹر/دن ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ریڈ ہل، شولاورم اور چیمبربکّم جھیل جیسے پانی کے ماخذ پوری طرح سے سوکھ چکے ہیں۔ لیکن ہم باقی ماخذ کی مدد سے سپلائی جاری رکھ رہے ہیں۔ ہم نومبر تک اس بحران سے نپٹ لیںگے۔ ‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امید کے مطابق اگلے مہینے تک مانسون آنے کے بعد زمین میں پانی کی سطح واپس بڑھ سکتی ہے۔
سیاسی کھینچ تان
آبی بحران کے بڑھنے کے ساتھ سیاسی الزام تراشیاں بڑھ گئی ہیں۔ حزب مخالف کے رہنما اور ڈی ایم کے چیف ایم کے اسٹالن نے میونسپل ایڈمنسٹریشن منسٹر ایس پی ویلمن کے استعفیٰ کی مانگ کی ہے اور ایسا نہ کرنے کی حالت میں وزیراعلیٰ پلانیسوامی سے ان کو کابینہ سے نکالنے کو کہا ہے۔سنیچر کو جاری بیان میں اسٹالن نے کہا، ‘ آبی بحران کی وجہ سے کئی ایسوسی ایشن بند چل رہے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے ملازمین سے گھر سے کام کرنے کو کہا ہے۔ کیا بد عنوانی میں لگے میونسپل ایڈمنسٹریشن منسٹرکے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
اس بیچ بی جے پی کی ریاستی اکائی نے اسٹالن کے اس بحران کے دوران غیر حاضر رہنے پر ان کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما ایس جی سوریہ نے
کہا کہ یہ’شرمناک ‘ہے کہ اسٹالن اس وقت مبینہ طور پر چھٹیاں منا رہے ہیں۔اس سال اپریل-مئی میں جب ریاست میں پانی کی بےحد کمی شروع ہوئی تھی، تب
ریاستی حکومت نے یگیہ کروانے کو اس بحران کا حل بتایا تھا۔ ریاستی حکومت نے حکومت کے ہندو مذہبی اور مخیرانہ فنڈ محکمہ کے تحت آنے والے تمام مندروں سے بارش کی درخواست کے لئے یگیہ کرنے کو کہا تھا۔