تمل شاعرہ سکیرتھارنی کو نیو انڈین ایکسپریس گروپ کی جانب سے اپنے اپنے شعبوں میں 12 خواتین کو دیے جانے والے ‘دیوی ایوارڈ’سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈلینے سے انکار کرتے ہوئےشاعرہ نے کہا کہ اڈانی گروپ کی طرف سے اسپانسر ہونے والے پروگرام کا حصہ بننا ان کی تخلیقی فطرت اور اصولوں کے خلاف ہوگا۔
نئی دہلی: تمل شاعرہ سکیرتھارنی نے یہ جاننے کے بعد کہ ایوارڈ فنکشن کا مرکزی اسپانسراڈانی گروپ ہے،انہوں نے دیوی ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
انہوں نے ٹیلی گراف کو بتایا،پروگرام کا حصہ بننا میرے اصولوں، میری تخلیقی فطرت اور میرے فلسفے، جس کے لیے میں اب تک کھڑی ہوتی رہی ہوں، کے خلاف ہے۔
انہوں نے 4 فروری کو اپنے فیس بک پیج پر ایوارڈ قبول نہ کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا۔ دی نیوز منٹ کے مطابق، انہوں نے تمل میں لکھی ایک پوسٹ میں کہا، ‘دی نیو انڈین ایکسپریس گروپ 12 خواتین کو ‘دیوی ایوارڈ’ دیتا ہے، جنہیں اپنے اپنے شعبوں میں ان کی خدمات کے لیے ملک بھر سے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ مجھے دلت ادب میں میری خدمات کے لیے دیا جانا ہے۔ میں نیو انڈین ایکسپریس کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
انہوں نے مزید لکھا، ‘مجھے کل ہی معلوم ہوا کہ اڈانی اس ایونٹ کے اسپانسر ہیں۔ میں جس سیاست کے بارے میں بات کرتی ہوں اور جن نظریات پر میں یقین رکھتی ہوں، اس کے لیے مجھے کسی تنظیم یا کسی ایسے پروگرام سے ایوارڈ حاصل کرنے پر خوشی نہیں ہوگی جس کو اڈانی گروپ کا مالی تعاون حاصل ہو۔ اس لیے میں دیوی ایوارڈ لینے سے انکار کرتی ہوں۔
ایوارڈ کی تقریب 8 فروری کو چنئی کے آئی ٹی سی گرینڈ چول ہوٹل میں منعقدکی گئی تھی۔ سائنسدان گگن دیپ کانگ، بھرت ناٹیم ڈانسر پریہ درشنی گووند، سماجی کارکن رادھیکا سنتھا نکرشنا اور اسکواش کھلاڑی جوشنا چنپا سمیت تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی 12 خواتین کو اس سال ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیاتھا۔
تمل شاعرہ کا ادبی کارنامہ ہندوستان، خصوصی طور پر تمل ناڈو میں دلت خواتین کی زندگی اور ان کی پریشانیوں کو محیط ہے۔
انہوں نے 2017 میں دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،میرے لیے کاسٹ کی پہچان اور خواتین کے جسم آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔میں ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں کہ دلت خواتین کے مسائل دوسری ذاتوں کی خواتین سے مختلف ہیں۔ میری تمام تحریریں میرے اپنے تجربات نہیں ہیں۔ یہ ہر دوسری عورت یا دلت عورت کے تجربات ہیں۔ ہم سب ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دلت خواتین کے بدن خاص طور پر مستقل تشدد کے شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا، میری رائے میں اونچی ذات کی خواتین جس درد سےگزرتی ہیں،اس کے مقابلے دلت خواتین اوربھی بدتر صورتحال سے گزرتی ہیں۔ ہمیں اپنے ہی طبقے کے مردوں کے ساتھ اندرونی کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو خواتین پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اونچی ذات کے مرد ایک اور چیلنج ہیں، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ انہیں اپنی طاقت کو اور بھی زیادہ جارحانہ انداز میں دکھانے کا اختیار ہے۔ کسی بھی گھر کی خواتین کی حیثیت معاشرے سے مختلف نہیں ہوتی ۔
وہ رانی پیٹ ضلع کے لالہ پیٹ میں ٹیچر بھی ہیں۔ ان کے چھ شعری مجموعے ہیں۔ ان کی متعدد نظمیں تمل ناڈو کے کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور ان کا انگریزی، ملیالم، کنڑ، ہندی اور جرمن میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
سال 2021 میں دہلی یونیورسٹی کے ذریعے ان کی تحریروں کو نصاب سے ہٹانے کے فیصلے کی بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تھی۔
تب انہوں نے دی وائر کو بتایا تھا، ‘اسی طرح ایک عورت کے جسم کو ‘اقتدار’کے ذریعے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور تباہ کیا جاتا ہے۔ میں یقینی طور پر حیران نہیں ہوں کہ یہ نظمیں ہٹا دی گئی ہیں۔ اب ہمارے پاس ایک مرکزی حکومت ہے جو سناتن میں یقین رکھتی ہے۔ لیکن واضح طور پر، وہ میرے لکھنے سے پریشان ہیں۔ میں حیران نہیں ہوں کیونکہ طاقتور دلت آوازوں کو ہمیشہ خاموش کیا جاتا رہا ہے۔ جب وہ ہمارے کاموں کی سچائی کا سامنا نہیں کرپاتے – میرے، باما یا مہاسویتا دیوی کے – تو وہ ہمیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے کام خود بولتے ہیں۔
واضح ہو کہ اڈانی گروپ گزشتہ چند ہفتوں سے اس وقت سے بڑے تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جب سے ایک امریکی سرمایہ کاری ریسرچ فرم ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی گروپ پر دھوکہ دہی کے الزامات لگائے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیاتھاکہ دو سال کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اڈانی گروپ کئی دہائیوں سے ‘اسٹاک ہیرا پھیری اور اکاؤنٹنگ فراڈ’ میں ملوث ہے۔