سری لنکا کے آئین میں اس 13ویں ترمیم کو وہی حیثیت ہے، جو ہندوستانی آئین میں دفعہ 370اور 35اے کو حاصل تھی، جس کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کو چند آئینی تحفظات حاصل تھیں۔ان دفعات کو اگست 2019میں ہندوستانیحکومت نے نہ صرف منسوخ کردیا بلکہ ریاست ہی تحلیل کردی۔ اب سری لنکا حکومت کو تامل ہند و اقلیت کے سیاسی حقوق کی پاسداری کرنے کا وعدہ یاد لانا اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت والا معاملہ لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ہندوستان سری لنکا کو اقلیتوں کے حقوق کا سبق پڑھا سکتا ہے؟
بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑدیا۔کروناندھی یہ بھی یاد دلاتے تھے کہ 1987 میں دہلی کے اشوکا ہوٹل کے ایک کمرے میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی موجودگی میں 40لاکھ روپیوں سے بھرا ایک سوٹ کیس تامل ٹائیگرز کے کمانڈرویلوپلائی پربھاکرن کے حوالے کیا تھا۔ جب ہندوستان حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تو سری لنکا کے سہنالا بدھ لیڈروں نے بھی شادیانے منائے۔ ان کے مطابق اب ہندوستان سری لنکا پر 13ویں ترمیم کے نفاذ کے لیے زور نہیں ڈال پائے گا۔ سری لنکا کے موجودہ وزیرا عظم مہندا راجاپکشا نے تو ٹوئٹ جاری کرکے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ ماہرین نے تو اسی وقت خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سری لنکا کے نئے صدر کے لیے مودی حکومت کا قدم نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا۔ تامل تجزیہ کار شاستری راما چندرن کے مطابق جموں کشمیر پر آئینی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد ہندوستانی حکومت کے پاس سری لنکا کو 13ویں ترمیم کے نفاذ پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا ہے۔ 2019کے صدارتی انتخابات کے موقع پر راجا پکشا کی پارٹی ایس ایل پی پی نے واضح کر دیا تھا کہ کشمیر میں ہندوستانی حکومت کا قدم سری لنکا حکومت کے لیے تقلید کا باعث ہوگا۔ جنوبی صوبہ تامل ناڈو کے ایک سینئر سیاستداں وی گوپال سوامی المعروف ویکو نے مودی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ کشمیر پر اس کے فیصلے کے مضمرات سفارتی سطح پر خاصے پیچیدہ ہوں گے اور سری لنکا کی تامل آبادی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ ے گا۔ راما چندرن، جنہوں نے سری لنکا پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے کا کہنا ہے کہ گوٹا بایا راجا پکشا اور ان کے برادر مہندا راجا پکشا نے اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کو تامل ہندو آبادی اور ہندوستان کا خوف دلا کر انتخابات میں اسی طرح لام بند کیا، جس طرح مودی نے ہندوستان میں مسلمانوں اور پاکستان سے ہندو اکثریتی فرقہ کو خوف زدہ کرکے ووٹ بٹورے۔ سابق سفارت کار ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی موجودہ حکومت اور مودی حکومت میں خاصی مماثلت ہے۔ سری لنکا میں یہ احساس گھر کر چکا ہے کہ 2015میں ہندوستان اور مغربی طاقتوں کی سازش کی وجہ سے مہندا راجا پکشا انتخابات ہار گئے تھے۔ راجا پکشا نے تو ہندوستان پر سری لنکا کے انتخابات میں مداخلت کا بھی الزام لگایا تھا، جس کے بعد ہندوستان کو کولمبو میں خفیہ ایجنسی راء کے ایک افسر کے ایلنگو کو واپس بلانا پڑا۔ سری لنکا میں انتخابا ت سے قبل تامل پارٹیوں نے سبھی سیاسی پارٹیوں کے سامنے ایک تیرہ نکاتی چارٹر پیش کیا تھا۔ جس میں تامل مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنا، اختیارات تفویض کرنا، حق خود ارادیت کے ذریعے تامل علاقوں کی خود مختاری کو یقینی بنانا، ون یونٹ اسٹیٹ کو مسترد کرکے وفاقی ڈھانچہ کو تشکیل دینا، عالمی اداروں کے ذریعے تامل آبادی پر ہوئے ظلم و ستم کی جانچ کرنا، سخت قوانین کاالعدم کرنا اور تامل آبادیوں میں اکثریتی سنہالا بدھ آبادی کی باز آبادکاری روکنا جیسے امور شامل تھے۔ ان سبھی مطالبوں کو راجا پکشا حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔ خیر فی الوقت تامل ناڈو میں سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ہندوستان کے خفیہ اداروں کے حساس صوبوں کی فہرست میں جموں و کشمیر کے بعد تامل ناڈو اب دوسرے نمبر پر ہے۔ اس خطے کے دو اہم لیڈروں اور سابق وزرا ئے اعلیٰ جے جیہ للتا اور ایم کروناندھی کی موت کے بعد بی جے پی کو لگتا ہے کہ وہ اتحادیوں کی مد د کے ساتھ اس صوبہ میں اقتدار میں آسکتی ہے۔ اس لیے وہ سری لنکا میں تامل آبادی کے لیے آنسو بہا کر اور کسی طرح سری لنکا حکومت کو کسی رعایت کے لیےراضی کرواکے انتخابات جیتنے کا سامان مہیا کروانا چاہتی ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تامل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔ اقتصادی لحاظ سے تامل ناڈو اس وقت ہندوستان کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے۔ زراعت میں خود کفالت کے علاوہ یہاں صنعتوں کا جال بچھا ہو اہے۔ ہندوستان کی دو ٹریلین ڈالر کی معیشت میں اس کا حصہ 210بلین ڈالر ہے۔ ہندوستان میں جہاں اوسط فی کس آمدنی 86ہزار سالانہ ہے، وہیں اس صوبہ میں یہ ایک لاکھ 28ہزار ہے۔مگر خوشحالی کے ساتھ ساتھ کورپشن میں بھی یہ صوبہ سرفہرست ہے۔ انتخابات میں یہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔