ہیٹ اسپیچ کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ متعلقہ جرائم پر کی گئی کارروائی کے بارے میں رپورٹ داخل کریں۔ بنچ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور دہشت زدہ کرنے کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے مداخلت کی مانگ والی عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔
نئی دہلی: ہیٹ اسپیچ کو ‘انتہائی سنگین مسئلہ’ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعہ کو دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو ہدایت دی کہ ایسے معاملات میں شکایت درج ہونے کا انتظار کیے بغیرقصورواروں کے خلاف مجرمانہ معاملہ فوراً درج کریں۔
عدالت عظمیٰ نے تینوں حکومتوں کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں ہیٹ اسپیچ سے متعلق جرائم پر کی گئی کارروائی کے بارے میں عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔
جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی بنچ نے شاہین عبداللہ نامی شخص کی طرف سے دائر درخواست پر ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کیے۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ہدایت دی کہ ایسے معاملوں میں ازخود نوٹس لے کر کیس درج کیاجانا چاہیے اور مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔ ایسی تقریر کرنے والوں کے مذہب سے قطع نظر کارروائی ہونی چاہیے۔
عدالت نے متنبہ کیا کہ ہدایات کے مطابق کام کرنے میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کو عدالت کی توہین مانا جائے گا۔
بنچ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کو دہشت زدہ کرنے اور نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی مانگ والی ایک عرضی پر شنوائی کر رہی تھی۔
اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ حکام ہیٹ کرائم کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے ہیں،اور یہ ایک سنگین معاملہ ہے؛ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار کی شکایت ملک میں نفرت کے موجودہ ماحول اور حکام کی بے عملی سے متعلق ہے۔
بنچ نے کہا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا، ہندوستان کا آئین اسے ایک سیکولر ملک اور بھائی چارے کے طور پر دیکھتا ہے، فرد کے وقار کو یقینی بناتا ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت وہ رہنما اصول ہیں جو تمہید میں درج ہیں۔ کوئی بھائی چارہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ مختلف مذاہب یا ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہم آہنگی سے زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوں۔
درخواست گزار نے تشویش کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد بھی متعلقہ کیسز میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور صرف ہدایات کی خلاف ورزی کے معاملے بڑھے ہیں۔
اس تشویش کو ذہن میں رکھتے ہوئے، عدالت نےاپنے فیصلے میں کہا، ‘ہم محسوس کرتے ہیں کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور آئینی اقدار، بالخصوص قانون کی حکمرانی اور ملک کے سیکولر جمہوری کردار کی حفاظت کرے۔ ‘
عرضی گزار شاہین عبداللہ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے بنچ کو بتایا کہ بی جے پی لیڈر پرویش ورما نے (مسلم کمیونٹی کے) معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے نازیبا زبان استعمال کی ہے۔
واضح ہو کہ 9 اکتوبر کو قومی راجدھانی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما نے شمال–مشرقی دہلی میں ایک ہندو نوجوان کی ہلاکت کے خلاف منعقدہ ایک تقریب میں مبینہ طور پر ایک مخصوص کمیونٹی (مسلمان) کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔
اس واقعہ کے مبینہ ویڈیو میں ورما کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ آپ کو دکھائی دیں تو ان کا دماغ ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے – مکمل بائیکاٹ۔
سبل نے کہا، ہم نے کئی شکایتیں درج کرائی ہیں۔ یہ عدالت یا انتظامیہ اسٹیٹس رپورٹ طلب کرنے کے علاوہ کبھی کارروائی نہیں کرتی اور لوگ روزانہ (نفرت پھیلانے والے) پروگراموں میں حصہ لے رہے ہیں۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، تاہم، بنچ نے اس طرح کے جرائم کے سلسلے میں یو اے پی اے لگانےکی درخواست پر شک کا اظہار کیا۔ اپنی درخواست میں عبداللہ نے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے یو اے پی اے اور دیگر سخت دفعات کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
سبل نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں’دھرم سنسد’ کے واقعات اور سیاسی میٹنگوں میں ہوئےنفرت انگیز تقریر کے جرائم کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے تشکیل کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔
اس دوران جسٹس جوزف نے پوچھا کہ کیا مسلمان بھی نفرت انگیز تقاریر کر رہے ہیں؟اس پر سبل نے جواب دیا کہ نفرت انگیز تقریر کرنے والے کسی بھی شخص کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔
اس موقع پر جسٹس جوزف نے کہا کہ آرٹیکل 51 اے کہتا ہے کہ ہمیں سائنسی مزاج کو فروغ دینا چاہیے اور مذہب کے نام پر ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ یہ افسوس کی بات ہے.’
عرضی میں درج بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس رائے نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن ہیں، خاص طور پر اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہ ہمارا ملک مذہب سے غیر جانبدار ہے۔ تاہم، انہوں نے سوال کیا کہ کیا صرف ایک اورمخصوص کمیونٹی کے خلاف بیانات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
معلوم ہوکہ اس سے ایک دن قبل جمعرات کو سپریم کورٹ نے مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے مناسب قدم اٹھانے کی ہدایت دینے کی مانگ کر رہی عرضی پر مرکز اور ریاستوں سے جواب طلب کیا تھا۔
جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے مرکز اور تمام ریاستوں کو نوٹس جاری کیا تھا، اور اسے دوسری بنچ کے سامنے زیر التوا اسی طرح کی درخواستوں سے منسلک کیا تھا۔
عرضی گزار شاہین عبداللہ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ملک بھر میں نفرت انگیز جرائم اور اشتعال انگیز تقاریر کے واقعات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات شروع کرنے کی ہدایت دینےکی مانگ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)