اپنے متنازعہ بیانات کے لیےمعروف حیدرآباد کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو بی جے پی نے گزشتہ سال پیغمبر اسلام کے بارے میں ایک متنازعہ ویڈیو جاری کرنے کے باعث معطل کردیا تھا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے الزام میں جیل میں رہنے کے بعد عدالت نے ان کی رہائی کے حکم میں تین اہم شرائط عائد کی تھیں، جن میں اشتعال انگیز تقاریر نہ کرنا بھی شامل ہے۔
ٹی راجہ سنگھ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
گزشتہ سال نومبر میں تلنگانہ ہائی کورٹ نے گوشا محل، حیدرآباد کے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کی احتیاطی حراست (نظر بندی) کو رد کرتے ہوئے تین شرطیں رکھی تھیں۔ سنگھ کے خلاف 100 سے زیادہ مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ واضح ہو کہ انہوں نے حیدرآباد میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے الزام میں 76 دن جیل میں گزارے تھے۔
جسٹس اےابھیشیک ریڈی اور جوادی شری دیوی نے 9 نومبر 2022 کےفیصلے میں واضح پابندیاں عائد کی تھیں۔
فیصلے کے مطابق، ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ اپنی رہائی کے بعد کسی ریلی/میٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے اور نہ ہی اس کا اہتمام کریں گے۔ پرنٹ میڈیا سمیت کسی بھی طرح کے میڈیا گھرانے کو کوئی بھی انٹرویو دینےکی اجازت نہیں ہوگی۔ مستقبل میں وہ ‘کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی اشتعال انگیز تقریر نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم مثلاً— فیس بک، ٹوئٹر، وہاٹس ایپ، یوٹیوب وغیرہ پر کوئی توہین آمیزیا قابل اعتراض پوسٹ کریں گے۔
تاہم سنگھ کو ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے میں تین ماہ سے بھی کم وقت لگا۔ وہ 29 جنوری کو ایک انتہا پسند ہندو گروپ ‘سکل ہندو سماج’ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے ممبئی میں تھے۔
گروپ کے زیر اہتمام ہندو جن آکروش مورچہ میں سنگھ نے اعلان کیا کہ اگر مہاراشٹر حکومت تبدیلی مذہب مخالف قانون متعارف نہیں کراتی تو ہندو جلد ہی سخت احتجاج درج کرائیں گے۔
ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے صرف ایک نئے قانون کے خیال کو فروغ نہیں دیا تھا۔ وہ مجمع کو ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بھی اکسا رہے تھے۔ انہوں نے بیہودہ اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے اور مسلم کمیونٹی کے خلاف براہ راست تشدد کی اپیل کی۔
ان کی تقریر نے نہ صرف ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی بلکہ واضح طور پر دو مذہبی گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دیا، جو تعزیرات ہند (آئی پی سی ) کی دفعہ 153بی اور 295اے کے تحت جرم ہے۔
سنگھ کی تقریر کے بعد ایک اور ہندوتوا لیڈر ساکشی گائیکواڈ نے بھی اسی طرح کی اشتعال انگیز تقریر کی، جس میں انہوں نے کھلے عام نسل کشی اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ ‘قربانی کے بکرے’ جیسا سلوک کرنے کی اپیل کی۔
ہندو جن آکروش مورچہ دادر کے شیواجی پارک سے شروع ہوا اور چار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرتے ہوئے پریل کے کامگار میدان میں اختتام پذیر ہوا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کے رہنما اور کارکن اس ریلی کا حصہ تھے۔
سنگھ اور دیگر مقررین کی تقاریر بڑے پیمانے پرسوشل میڈیا پرشیئر کیے جا رہے ہیں۔ ممبئی پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی ہے۔
دی وائر نے دادر پولیس اور ممبئی پولیس کے ترجمان سے ان کے تبصرے کے لیے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کا جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
دریں اثنا، حیدرآباد پولیس نے ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کو نوٹس جاری کرنے میں مستعدی دکھائی ہے۔ گزشتہ چار دنوں میں حیدرآباد کی منگل ہاٹ پولیس نے ہائی کورٹ کی طرف سے ان کی رہائی پر عائد شرائط کا حوالہ دیتے ہوئے دو نوٹس جاری کیے ہیں۔ پہلا نوٹس تقریر کے فوراً بعد جاری کیا گیا تھا۔ سنگھ کی رہائش گاہ پر بھیجے گئے نوٹس میں ان سے دو دن کے اندر جواب دینے کو کہا گیا کہ کیوں نہ ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کی جائے۔
پولیس کی جانب سے ٹی راجہ سنگھ کو جاری کیے گئے نوٹس میں ان کی رہائی کے حکم کی شرائط کو یاد دلاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ویڈیو میں’لو جہاد، گئو کشی، تبدیلی مذہب کے قوانین کے مطالبات اور کچھ دوسرے الفاظ سے متعلق آپ کی تقریرایک خاص کمیونٹی کے لیے انتہائی جارحانہ اور اشتعال انگیز ہے۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘کسی خاص مذہب کو بھڑکانے والی آپ کی تقریر ہائی کورٹ کی جانب سے عائد کردہ شرائط کی خلاف ورزی ہے۔’
ممبئی کے ان کے دورے سے صرف ایک ہفتہ قبل سنگھ کو گزشتہ سال
اجمیر درگاہ میں اسی طرح کی اشتعال انگیز تقریر کے لیے ایک اور نوٹس دیا گیا تھا۔
پولیس نے اس نوٹس میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر سنگھ جان بوجھ کر فرقہ وارانہ جذبات کوبھڑکانا اور اشتعال انگیز بیانات دینا بند نہیں کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم پولیس نے صرف مزید نوٹس جاری کیے ہیں اور انہیں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔
اس کے برعکس ایم ایل اے سنگھ اپنے رویے پر قائم ہیں اور انہوں نے تلنگانہ پولیس کو چیلنج کیا ہے۔ سنگھ کا دعویٰ ہے کہ پولیس کا نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ
سیاسی تھا اور وہ ‘واپس جیل واپس جانے سے نہیں ڈرتے۔
بتادیں کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں مبینہ توہین آمیزویڈیو پوسٹ کرنے کی وجہ سے سنگھ کو گزشتہ سال اگست میں بی جے پی سے معطل کر دیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔