سشانت معاملے میں فیک ٹوئٹس دکھانے کے لیے23 اپریل کو معافی نامہ جاری کرے آج تک: این بی ایس اے

اکتوبر 2020 میں نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے آج تک کو سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ان کے کچھ ٹوئٹ کو لےکر کی گئی غلط رپورٹنگ کا قصوروار مانتے ہوئے معافی نامہ اور جرمانہ دینے کو کہا تھا۔ چینل نے اس معاملے میں نظرثانی کے لیےعرضی دائر کی تھی، جس کو خارج کرتے ہوئے اتھارٹی نے اپنےفیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

اکتوبر 2020  میں نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے آج تک کو سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد ان کے کچھ ٹوئٹ کو لےکر کی گئی غلط رپورٹنگ کا قصوروار مانتے ہوئے معافی نامہ اور جرمانہ  دینے کو کہا تھا۔ چینل نے اس معاملے میں نظرثانی کے لیےعرضی  دائر کی تھی، جس کو خارج کرتے ہوئے اتھارٹی نے اپنےفیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: آج تک چینل کی عرضی  کو خارج کرتے ہوئے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی(این بی ایس اے)نے ایکٹر سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے معاملے میں غلط رپورٹنگ کے لیے ہندی نیوز چینل آج تک کو 23 اپریل کو رات 8 بجے معافی نامہ  شائع  کرنے کی مانگ کی ہے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، این بی ایس اے نے پچھلے سال 6 اکتوبر کو جاری کیے گئے اپنے آرڈر کو برقرار رکھا ہے جس میں اس نے پایا تھا کہ سشانت سنگھ راجپوت کے کچھ ٹوئٹ کو ان کے آخری لفظ  بتاتے ہوئے غلط رپورٹنگ کی تھی اور نشریاتی ضابطوں  کی خلاف ورزی  کی تھی۔

این بی ایس اے نے آج تک سے 23 اپریل،2021 کو رات کے 8 بجے پورےاسکرین پر بڑے حرفوں  میں دھیمی رفتار کی آواز کے ساتھ معافی نامہ شائع  کرنے کی گزارش کی ہے۔

آج تک نے معافی مانگتے ہوئے کہا،‘سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی  سے متعلق واقعات  پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ہم نے آج تک چینل پر کچھ ٹوئٹس چلائے تھے اور غلط طریقے سے اسکرین شاٹ کو اصلی بتاتے ہوئے انہیں ایکٹر کے آخری ٹوئٹس کے طور پرذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ایسا کرنے سے ہم نے درستگی  کے ساتھ متعلق  رپورٹ کو کور کرنے کی خصوصی ہدایات  کےحصہ1کی خلاف ورزی  کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جانکاری کو ایک سے زیادہ ذرائع  سے پہلے اکٹھا کیا جانا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو نیوز ایجنسیوں سے موصولہ  رپورٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے اور جہاں ممکن  ہو اس کی تصدیق  کی جانی چاہیے۔ الزامات  کوصحیح شکل  میں رپورٹ کیا جانا چاہیے اورحقائق  کے صحیح ایڈیشن  کی نشریات کوخاطرخواہ اہمیت  دیتے ہوئےخامیوں  کو جلد سے جلد ٹھیک کیا جانا چاہیے۔’

این بی ایس اے نے آج تک چینل پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا ہے۔آج تک کے خلاف اکتوبر، 2020 کا بنیادی حکم  فلمساز نیلیش نولکھا کی جانب  سے اپنے وکیل راجیش انعامدار اور شاشوت آنند کے توسط  سے درج کرائی گئی شکایت پر جاری ہوا تھا۔

اس آرڈر  کے مطابق، چینل سے 27 اکتوبر کو معافی نامہ  شائع  کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ 6 اکتوبر کے آرڈر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آج تک نے سشانت کے نام سے ٹوئٹس دکھانے سے پہلے ضروری احتیاط  نہیں برتا۔یہ فیک ٹوئٹس تھے،  جنہیں بعد میں چینل نے ڈی لٹ کر دیا تھا۔

اس بیچ آج تک نےنظرثانی کے لیےعرضی داخل کرکے آرڈر کاتجزیہ کرنے یا اسے واپس لینے کی مانگ کی اور کہا کہ شکایت گزار نشریات  کی جانکاری نہیں دے سکے۔اس نے کہا کہ شکایت گزارنے صرف ایک فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ بوم لائیو ڈاٹ ان کا لنک دیا جس میں آج تک کی مبینہ  رپورٹ کا ذکر تھا۔ اس لیے اس نے کہا کہ شکایت نہیں بنتی ہے۔

حالانکہ این بی ایس اے نے کہا کہ عرضی میں کوئی سچائی  نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ تجزیہ کی  کارروائی میں نئے حقائق نہیں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ آج تک نے ان حقائق کو بنیادی  کارر وائی میں شامل نہیں کیا جبکہ اس کے پاس ایسا موقع تھا۔

آرڈرمیں کہا گیا،‘یہ دھیان دیا جا سکتا ہے کہ کسی آرڈر کے تجزیہ/ری کال کی مانگ کرتے وقت اضافی/نئے حقائق  اورحوالے نہیں جمع کیے جا سکتے ہیں۔ ان بنیادوں  پر، این بی ایس اےنے عرضی  کو خارج کر دیتا ہے اور فیصلہ لیتا ہے کہ براڈکاسٹرکو اس تاریخ  اور وقت  پر نشریات کے لیےہدایت  دی جائےگی جو براڈکاسٹر کومطلع  کیا جائےگا اور ہدایت کے مطابق میں لگائے گئے جرما نے کو بھی بھیج دےگا۔’

این بی ایس اے نے یہ بھی کہا کہ چینل نے 27 اکتوبر کومعافی نامہ  نشر کرنے کے بنیادی فیصلے پر عمل نہیں کیا اور 23 اپریل کو معافی نامہ  نشر کرنے کے لیے کہا۔

بتا دیں کہ آج تک کے ساتھ زی نیوز، انڈیا ٹی وی، نیوز 24 جیسے چینل بھی این بی ایس اے کے ذریعے صحافت کے معیاروں پر عمل  نہ کرنے اور سشانت سنگھ راجپوت پر غیرحساس  رپورٹنگ کےقصوروار پائے گئے تھے۔

معلوم  ہو کہ این بی ایس اے ایک سیلف ریگولیٹری ادارہ ہے جو نیوز انڈسٹری میں نشریاتی ضابطے اور ہدایات  کونافذ کرتا ہے۔ اس میں 70 چینلوں کی نمائندگی کرنے والے 27 ممبر شامل ہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اےکے سیکری اس کے چیئر مین ہیں۔