دستاویز کے مطابق، مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ہر خاندان کو سرکاری خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ‘جموں کشمیر فیملی آئی ڈی’ کے نام سے ایک یونک الفا نیومیرک کوڈ (منفرد الفاعددی کوڈ) فراہم کیا جائے گا۔ یہ ہریانہ کے ‘فیملی آئی ڈی ایکٹ 2021’ کی طرز پر لاگو کیا جائے گا۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کی مقامی انتظامیہ نے اس مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تمام خاندانوں کا
ذاتی ڈیٹا بیس بنانے کی سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے، جس پر پرسنل ڈیٹا کے تحفظ سے متعلق خدشات کو لے کراپوزیشن نے شدید طور پر مخالفت درج کی ہے۔
اس پالیسی کا اجرا جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے 27 نومبر کو جموں کے کٹرا شہر میں شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں منعقدہ 25ویں نیشنل ای-گورننس کانفرنس میں کیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔
ڈیٹا بیس بنانے والی نوڈل ایجنسی–جموں و کشمیر آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کی کمشنر سکریٹری پریرنا سوری نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عمل ہریانہ کی فیملی آئی ڈی کی طرح ہی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا بیس ان لوگوں کی پریشانی کو دور کرے گا، جنہیں مختلف سرکاری اسکیموں اور سبسڈی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر بار دستاویز جمع کرنے پڑتے ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں، ہریانہ نے فیملی آئی ڈی ایکٹ2021 نافذ کیا تھا، جس کے تحت وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں ہریانہ فیملی آئی ڈی اتھارٹی کا قیام ریاست کے لوگوں کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے کیا گیا۔ یہ’نام’ اور ‘رہائشی پتہ’ جیسی بنیادی تفصیلات کے ساتھ، ایکٹ اتھارٹی کو رہائشیوں کی ‘ذات’، ‘سالانہ آمدنی’، ‘تعلیمی لیاقت’ اور ‘بینک تفصیلات’ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کو کہتا ہے۔
ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا کی تصدیق موجودہ ڈیٹا اور فیلڈ سروے کے ذریعے کی جائے گی، جس کے بعد ہر گھر کو ایک منفرد الفا عددی کوڈ الاٹ کی جائے گی، جسے لوگ حکومت کے مختلف سماجی بہبود کے پروگراموں، سبسڈیز اور اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔
ڈیجیٹل جموں کشمیر وژن ڈاکیومنٹ کے مطابق، جموں و کشمیر میں اتھارٹی ‘ہر فیملی کی شناخت’ کرے گا اورخاندان کی رضامندی سے ان کے بنیادی ڈیٹا کو یونک آئی ڈی تیار کرنے کے لیے اکٹھا کرے گا۔
دستاویز میں کہا گیا ہے، ‘ہر خاندان کو ایک منفرد الفا عددی کوڈ فراہم کیا جائے گا، جسے جموں کشمیر فیملی آئی ڈی کہا جاتا ہے۔’
تاہم، حزب اختلاف نے اس فیصلے کو ‘وسائل کی بربادی’ اور ‘نگرانی کی حکمت عملی’ قرار دیا ہے ،جو جموں و کشمیر میں مرکزی حکومت کے خلاف ‘شکوک وشبہات کواور گہرا’ کرے گا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ نیا پرسنل ڈیٹا بیس قائم کرنے کا فیصلہ حکومت کے ‘پاگل پن’ کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘2019 کے واقعات کے بعد کشمیر کے لوگوں کو زیادہ شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ قدم نئی دہلی اور جموں و کشمیر کے درمیان اعتماد کی کمی پیدا کرے گا۔
وہیں، جموں کشمیر کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سکیورٹی) ایم وائی کچلو نے کہا کہ ڈیجیٹل فارمیٹ میں ڈیٹا کومحفوظ کرنے کی بات آنے پر’سائبر حملوں کے خطرات اور امکانات’ کا خطرہ بنا رہے گا۔ ہمیں جموں و کشمیر میں وہی مسائل درپیش ہوں گے جو ڈیٹا کے حوالے سے ملک بھر میں درپیش ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے ایمس اور کشمیر یونیورسٹی کے سرورز کی حالیہ ہیکنگ کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے ہر شہری کے ریکارڈ کو خطرے میں ڈال دے گا۔
جموں و کشمیر کانگریس کے چیف ترجمان رویندر شرما نے کہا کہ انتظامیہ کو جموں و کشمیر میں ‘ہریانہ کی پالیسی متعارف کرانے کی ضرورت کو واضح کرنا چاہیے’۔
شرما نے دی وائر کو بتایا، ملک بھر کے شہریوں کے پاس آدھار کی شکل میں پہلے سے ہی ایک منفردآئی ڈی ہے۔ ہم ڈیجیٹائزیشن کے خلاف نہیں ہیں، لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ڈیٹا کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔شرما نے کہا کہ انتظامیہ کو فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے کمشنر سکریٹری سوری نے بار بار رابطہ کے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا، ان کا جواب موصول ہونے پررپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)