سپریم کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت سے پولیس سیکورٹی میں گینگسٹر اور سابق ایم پی عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کی ہلاکت کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ دونوں کے قاتلوں کو کیسے پتہ چلا کہ اس رات میڈیکل چیک اپ کے لیے انہیں کس اسپتال لے جایا جائے گا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ (28 اپریل) کو اتر پردیش حکومت سے گینگسٹر اور سابق ایم پی عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کی حراست میں ہلاکت کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکومت کے وکیل سے واضح طور پر پوچھا ہے کہ میڈیا کے سامنے دونوں کی پریڈ کیوں کرائی گئی اور ایمبولینس میں براہ راست اسپتال کے گیٹ تک کیوں نہیں لے جایا گیا۔
گزشتہ 15 اپریل کو رات 10:30 بجے جب عتیق اور اشرف کو یوپی پولیس ‘معمول کے طبی معائنے’ کے لیے الہ آباد کے موتی لال نہرو منڈل اسپتال لے جا رہی تھی، تب ان کومیڈیا سے بات چیت کے دوران خود کو صحافی بتانے والے تین نوجوانوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی سے پوچھا، ہم نے ویڈیو فوٹیج دیکھے ہیں… انہیں داخلی دروازے تک کیوں نہیں لے جایا گیا… ان کی پریڈ کیوں کرائی گئی؟
عدالت نے مزید استفسار کیا کہ دونوں کے قاتلوں کو کیسے پتہ چلا کہ اس رات انہیں میڈیکل چیک اپ کے لیے لے جایا جائے گا اور اس ہسپتال کی تفصیلات بھی جہاں انہیں لے جایا جانا تھا۔
اپنے جواب میں روہتگی نے سپریم کورٹ کو بتایا،پولیس حراست کے لیے انہیں ہر دو دن میں طبی معائنہ کے لیے لانا ضروری ہوتاہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ (حملہ آور) مسلسل تین دن سے وہاں آرہے تھے۔
روہتگی نے دونوں کی حراست میں ہونے والی موت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ عتیق کا بیٹا اسد بھی ایک دن پہلے پولیس انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا اور خاندان ‘سنگین جرائم میں الجھا ہوا تھا’۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، روہتگی نے حکومت کی جانب سے ‘قتل کو خاندان کے مجرمانہ واقعات سے جوڑنے’ کا مطالبہ کیا۔
روہتگی نے کہا، ‘ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس اور ایک اور جج کے ساتھ انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ قتل کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے ریاستی حکومت کو تین ہفتوں کے اندر ایک جامع حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے، جس میں عتیق، اس کے بھائی، بیٹے اور ایک اور ساتھی کے قتل کی تحقیقات کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات بتانے کو کہا ہے۔
عدالت ایڈوکیٹ وشال تیواری کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں عتیق احمد قتل کیس کے ساتھ ساتھ یوگی آدتیہ ناتھ کے 2017 میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ریاست میں 183 ‘پولیس انکاؤنٹر’ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ 28 اپریل کو وشال تیواری، جو اس کیس کے وکیل بھی ہیں، نے کہا کہ ان اموات میں ایک ‘پیٹرن’ ہے اور اس لیے عدالت کو سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک آزاد کمیٹی قائم کرنی چاہیے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ کمیشن ریاست کی طرف سے تشکیل دیا گیا تھا، جس کا کردار اس معاملے میں سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
بنچ نے کہا کہ ریاستی حکومت کو اگلے تین ہفتوں کے اندر ریکارڈ پر ایک حلف نامہ داخل کرنا چاہیے، انہوں نے مزید کہا، اگر کوئی پیٹرن ہے، تو ہم کمیشن سے اس طرح کے دیگر معاملات کو دیکھنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
گزشتہ 15 اپریل کی رات کو اتر پردیش کے الہ آباد شہر میں ایک میڈیکل کالج میں جانچ کے لیے پولیس اہلکاروں کے ذریعے لے جانے کے دوران 60 سالہ عتیق احمد اور اشرف ، جنہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں، کو صحافیوں کے بھیس میں آئےتین افراد نے اس وقت گولی مار دی، جب وہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
الہ آباد پولیس نے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کو قتل کرنے والے تین حملہ آوروں کی شناخت لولیش تیواری (23 سال)، سنی سنگھ (23 سال) اور ارون موریہ (18 سال) کے طور پر کی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ وہ باندہ، کاس گنج اور ہمیر پور کے رہنے والے ہیں۔
فائرنگ سے چند گھنٹے قبل 13 اپریل کو جھانسی میں ایک پولیس انکاؤنٹر میں اپنے ایک ساتھی سمیت مارے گئے احمد کے بیٹے اسد احمد کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔
عتیق کے بیٹے اسد احمد اور غلام، امیش پال کے قتل میں مطلوب تھے، جنہیں 24 فروری کو الہ آباد واقع ان کے گھر کے باہر دن دہاڑے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پیشے سے وکیل امیش پال 2005 میں بی ایس پی ایم ایل اے راجو پال کے قتل کے گواہ تھے۔ عتیق احمد پر ایم ایل اے کے قتل کا الزام ہے۔
امیش پال کے قتل کے سلسلے میں عتیق احمد، اس کی اہلیہ شائستہ پروین، اس کے دو بیٹوں، اس کے چھوٹے بھائی خالد عظیم عرف اشرف اور دیگر کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔