سائن بورڈ پر اردو کا جواز پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا؛ آئیے  اردو اور تمام زبانوں سے دوستی کریں

07:44 PM Apr 17, 2025 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں میونسپل  کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا  کہ ‘قانون کی کسی بھی شق کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو آئین ہند کے شیڈول آٹھ کے تحت یکساں مقام حاصل ہے۔’

فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (15 اپریل) کو مہاراشٹر میں میونسپل آفس کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو صحیح ٹھہرایا ۔

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے پاتور میونسپل کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کے خلاف ایک سابق کونسلر کی عرضی کو خارج کر دیا۔  عدالت نے کہا، ‘2022 کے ایکٹ یا قانون کی کسی بھی شق کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو آئین ہند کے شیڈول آٹھ کے تحت یکساں مقام  حاصل ہے۔ ‘

یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کیونکہ عدالت نے کئی معنی خیز مشاہدات  پیش کیے ہیں کہ آج کے ہندوستان میں اردو کو کس طرح غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت ہندوستان کی  ہندوتوا تنظیمیں طویل عرصے سے اردو کو ایک غیر ملکی زبان کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں اور باور کراتی رہی ہیں کہ اسے’مسلم حملہ آوروں نے ملک پر تھوپا تھا۔’

معلوم ہو کہ رواں سال فروری میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو پڑھنے والوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے تضحیک آمیز ’کٹھ ملا‘لفظ کا استعمال کیا تھا ۔

اس تناظرمیں عدالت عظمیٰ کے مشاہدات، جو ذیل میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

‘نوآبادیاتی سیاست’

یہ اردو کے عروج و زوال پر تفصیل سے بات کرنے کا موقع نہیں ہے، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو کے اس انضمام کو دونوں  جانب کے شدت پسندوں  کی صورت میں ایک رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور ہندی سنسکرت سے ملتی جلتی اردو زیادہ فارسی آمیز ہو گئی۔ استعماری طاقتوں نے مذہب کی بنیاد پر دو زبانوں کو تقسیم کرکےاس کا فائدہ اٹھایا۔

اب ہندی ہندوؤں کی زبان اور اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی، جو حقیقت سے، لسانی تنوع  کےتصور سے اور بھائی چارے کی روایت کے منافی ہے۔

اگر لوگ زبان جانتے ہیں…

عدالت نے کہا؛ موجودہ کیس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ میونسپل علاقے کی مقامی کمیونٹی کو خدمات فراہم کرنے اور ان کی روزمرہ کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیےہوتا ہے۔ اگر میونسپل کےتحت آنے والے علاقے میں رہنے والے لوگ یا لوگوں کا ایک گروپ اردو سے واقف ہے تو کم از کم میونسپل کے سائن بورڈز پر سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ اردو استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ زبان خیالات کے تبادلے کا ایک ذریعہ ہے جو مختلف نظریات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے۔ اس کو ان کی تقسیم کی وجہ نہیں بننی چاہیے۔

‘اسی زمین سے پیدا ہوئی…’

اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی کی وجہ سے ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے غیر ملکی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ رائے غلط ہے، کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح ہند آریائی زبان ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے اس سرزمین میں جنم لیا۔ اردو ہندوستان میں مختلف ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے ترقی اور پروان چڑھی، جو خیالات کا تبادلہ اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اور بھی شہرت حاصل کی اور صدیوں کے دوران بہت سے مشہور شاعروں کی پسندیدہ زبان بن گئی۔

‘کوئی نئی بحث نہیں’

زبانوں کی بحث کوئی نئی بات نہیں۔ درحقیقت یہ آزادی سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی اور تحریک آزادی کے دوران بھی ہندوستانی زبانوں کے زیادہ استعمال کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے تسلیم کیا کہ ہندی، اردو اور پنجابی جیسی مختلف ہندوستانی زبانوں کے اتحاد سے بننے والی زبان کو ‘ہندوستانی’ کہا جاتا ہے، جو اس ملک کا ایک بڑا حصہ بولتا ہے۔

شاعر اقبال اشہر کی نظم

کسی بھی زبان کے بارے میں ہمارے اندر جو بھی غلط فہمیاں یا تعصبات ہیں، ہمیں ان کو ہمت اور ایمانداری کے ساتھ حقیقت کی کسوٹی  پر پرکھنا ہوگا،  جو ہمارے ملک کا عظیم الشان تنوع ہے۔ ہماری طاقت کبھی ہماری کمزوری نہیں بن سکتی۔ آئیے  اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔

اگر اردو خود اپنے لیے بولتی تو کہتی؛

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

زبان کا تعلق کمیونٹی سے ہے

آئیے اپنے تصورات کو واضح کریں۔ زبان مذہب نہیں ہے۔ زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ کسی برادری، علاقے اور لوگوں سے ہوتا ہے۔ زبان ثقافت ہے۔ یہ کسی کمیونٹی اور اس کے لوگوں کے تہذیبی سفر کو ماپنے کا ایک پیمانہ ہے۔

اردو کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب، یا ہندوستانی تہذیب کی ایک بہترین مثال ہے، جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے۔ لیکن سیکھنے کا ذریعہ بننے سے پہلے زبان ہمیشہ رابطے کا ذریعہ رہی ہے اور یہی اس کا پہلا اور بنیادی مقصد تھا۔

اب واپس آتے ہیں اپنے معاملے کی طرف… یہاں اردو استعمال کرنے کا مقصد صرف رابطہ ہے۔ میونسپل صرف موثر مواصلات قائم کرنا چاہتا تھا۔ یہ کسی بھی زبان کا بنیادی مقصد ہے، جس پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی زور دیا ہے۔

‘تنوع میں لطف حاصل کیجیے’

ہمیں اپنے تنوع کا احترام کرنا چاہیے اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے… بالخصوص اپنی  بہت سی زبانوں کے تنوع کا۔ ہندوستان میں سو سے زیادہ اہم  زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں زبانیں ایسی بھی ہیں جنہیں بولیاں یا ‘مادری زبان’ کہا جاتا ہے۔

سال 2001 کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں کل 122 اہم  زبانیں تھیں، جن میں 22 شیڈول زبانیں شامل تھیں، اور کل 234 مادری زبانیں درج تھیں۔ اردو ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی چھٹی زبان تھی۔ درحقیقت، شاید شمال- مشرقی ریاستوں کے علاوہ یہ تقریباً ہر ریاست اور یونین ٹیریٹری کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور بولی جاتی ہے۔

سال 2011 کی مردم شماری میں مادری زبانوں کی تعداد بڑھ کر 270 ہو گئی۔ تاہم، یہ بات اہم ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف ان مادری زبانوں کو شامل کر کے تیار کیے گئے جنہیں  دس ہزار سے زیادہ لوگ بولتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں حقیقی مادری زبانوں کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔

ہندوستان کا لسانی تنوع واقعی حیرت انگیز اور عظیم الشان  ہے!

رواداری

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبان صرف ایک ذریعہ نہیں ہے، یہ ایک ثقافت کی نمائندہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان پر کوئی بھی بحث نہ صرف حساس ہوتی ہے بلکہ انتہائی نازک بھی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ‘رواداری’ کا کردار، جو ہمارے آئین کی ایک بنیادی قدر ہے، انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔

ہم ہندوستان کے لوگوں نے، مرکزی سطح پر زبان کے مسئلے کو حل کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں، اور یہ ہماری ایک منفرد کامیابی ہے، خاص طور پر جب ہم اس ملک کے لسانی تنوع کے بارے میں بار بار بات کر رہے ہیں۔

عدالت کی زبان پر اثر

دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو الفاظ کا عدالتی زبان پر گہرا اثر ہے، چاہے وہ فوجداری قانون ہو یا دیوانی قانون۔ عدالت سے  لے کرحلف نامہ اور پیشی تک… ہندوستانی عدالتوں کی زبان میں اردو کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 348 کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سرکاری زبان انگریزی ہے لیکن ان عدالتوں میں اب بھی اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں وکیل نامہ، دستی وغیرہ شامل ہیں۔

ریاستوں کے ذریعے استعمال

ایک اور نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر ہندوستان کی کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے آئین کے آرٹیکل 345 کے تحت دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنایا ہے۔ جن ریاستوں میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے وہ ہیں آندھرا پردیش، بہار، جھارکھنڈ، تلنگانہ، اتر پردیش اور مغربی بنگال۔ جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دہلی اور جموں و کشمیر شامل ہیں۔

آئینی نقطہ نظر سے بھی سرکاری مقاصد کے لیے زبان کا استعمال کسی سخت فارمولے کے مطابق  نہیں کیا جاتا ہے۔