سپریم کورٹ کی ایک خصوصی بنچ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں کسی بھی ایف آئی آر کو درج کرنے، جانچ جاری رکھنے یا آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن) کے تحت زبردستی قدم اٹھانے سے تب تک گریز کریں گی، جب تک کہ اس پر نظر ثانی نہیں کر لی جاتی ۔ یہ مناسب ہوگا کہ اس پر نظرثانی ہونے تک قانون کی اس شق کااستعمال نہ کیا جائے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نےسیڈیشن کے معاملوں میں تمام کارروائیوں پر بدھ کوروک لگا دی اور مرکز اور ریاستوں کو ہدایت دی کہ جب تک حکومت نوآبادیاتی دور کے قانون پر غور نہیں کرلیتی، تب تک سیڈیشن کے الزام میں کوئی نئی ایف آئی آر درج نہ کی جائے۔
چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی خصوصی بنچ نے کہا کہ دفعہ 124 اے (سیڈیشن) کے تحت لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں تمام زیر التوا مقدمات، اپیلوں اور کارروائیوں کو ملتوی رکھا جانا چاہیے۔ ان معاملوں میں لاگودیگر دفعات کے فیصلے معمول کے مطابق جاری رہ سکتے ہیں۔
لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، بنچ نے کہا ہم امیدکرتے ہیں کہ مرکزاور ریاستی حکومتیں کسی بھی ایف آئی آر کو درج کرنے، جانچ جاری رکھنے یا آئی پی سی کی دفعہ 124اے کے تحت زبردستی قدم اٹھانے سے تب تک گریز کریں گی، جب تک کہ اس پر دوبارہ غور نہ کر لیا جائے۔ یہ مناسب ہوگا کہ اس پر غوروخوض ہونے تک قانون کی اس شق کا استعمال نہ کیا جائے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، اگر ایسے معاملے درج ہوتے ہیں تو متعلقہ فریق عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں اور عدالت کو معاملے کوتیزی سے نمٹانا ہو گا۔
تاہم، اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے، اہتمام کو ملتوی کرنا مناسب ہوگا۔
بنچ نے کہا کہ جو لوگ سیڈیشن کے معاملوں میں قصوروار قرار دیے گئے ہیں اور اس وقت جیل میں ہیں وہ ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بنچ نے کہا کہ عدالتوں کی طرف سے ملزمین کو دی جانے والی راحت جاری رہے گی۔ اس نے کہا کہ اس اہتمام کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے میں کی جائے گی تب تک مرکز کے پاس اس پر نظرثانی کرنے کا وقت ہوگا۔
اس سے پہلےمرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے بنچ کو مشورہ دیا تھا کہ ایک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) رینک کے افسر کو سیڈیشن کے الزام میں درج ایف آئی آر کی نگرانی کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
مہتہ نے بنچ کو بتایا کہ سیڈیشن کے الزام میں ایف آئی آر درج کرنا بند نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ شق قابل دست اندازی قانون سے متعلق ہے اور اسے 1962 میں ایک آئینی بنچ نے برقرار رکھا تھا۔
مرکز نے سیڈیشن کے زیر التوا مقدمات کے سلسلے میں عدالت کو مشورہ دیا کہ ایسے معاملات میں ضمانت کی درخواستوں کی جلد سماعت کی جاسکتی ہے، کیونکہ حکومت ہر معاملے کی گمبھیرتا سے واقف نہیں ہے اور یہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ جیسے پہلوؤں سے متعلق ہوسکتے ہیں۔
لاء آفیسر نے کہا، آخر کار زیر التوا مقدمات جوڈیشل فورم کے سامنے ہیں اور ہمیں عدالتوں پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ نے منگل کو مرکز سے کہا کہ وہ نوآبادیاتی دور کے سیڈیشن سے متعلق قانون پر کسی مناسب فورم کے ذریعے دوبارہ غور کیے جانے تک شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے معاملے پر 24 گھنٹے کے اندر اپنے خیالات واضح کرے۔
مرکز کی مودی حکومت نے 7 مئی کو سپریم کورٹ میں سیڈیشن سے متعلق تعزیری قانون (آئی پی سی کی دفعہ 124 اے) اور اس کے قانونی جواز کو برقرار رکھنے کے آئینی بنچ کے 1962 کے فیصلے کا دفاع کیا تھا۔ مرکز نے کہا کہ یہ قانون تقریباً چھ دہائیوں سے نافذ ہے اور اس کے غلط استعمال کی مثالیں کبھی بھی اس پر نظر ثانی کی وجہ نہیں بن سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ سیڈیشن سے متعلق قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے۔ سیڈیشن کا قانون ان الزامات کے درمیان تنازعات کے مرکز میں رہا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ مختلف حکومتیں اس کو سیاسی دشمنی طے کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔
ان الزامات پر سی جے آئی نے یہ پوچھا تھا کہ کیا مجاہدآزادی کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے اس نوآبادیاتی دور کے قانون کی آزادی کے 75 سال بعد بھی ضرورت ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، سابق میجر جنرل ایس جی وومبٹکیرے اور ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا کی طرف سے آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن) کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی جانچ کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ اس کی بنیادی تشویش اس کا ‘غلط استعمال’ ہے۔ جس کی وجہ سے معاملے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بغاوت سے متعلق تعزیری قانون کے بے تحاشہ غلط استعمال پر فکرمند عدالت نے گزشتہ سال جولائی میں مرکز سے پوچھا تھا کہ وہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے انگریزوں کے ذریعے استعمال کیے جانے والے اس شق کو کیوں ردنہیں کر رہی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھا کہ ان کی بنیادی تشویش ‘قانون کا غلط استعمال’ ہے اورانہوں نے پرانے قوانین کو رد کر رہے مرکز سے سوال کیا کہ کیوں وہ اس شق کو ختم نہیں کر رہی ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ سیڈیشن کے قانون کا مقصد جدوجہد آزادی کو دبانا تھا، جسے انگریزوں نے مہاتما گاندھی اور دیگر کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، بدھ کو دیا گیا عدالت کا یہ فیصلہ اہم ہے کیونکہ اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگایا تھاکہ قانون پر مبینہ طور پر ‘غوروخوض’ حکومت کے لیے سپریم کورٹ کے مقدمے سے بچنے اور اس دوران قانون کا استعمال جاری رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔
غیر ضمانتی دفعات کے ساتھ اس قانون کے تحت کوئی بھی تقریر یا اظہار رائے ، جو ہندوستان میں قانون کے ذریعے قائم کی گئی حکومت کے خلاف نفرت یا توہین کو فروغ دینے یا عدم اطمینان کو بڑھاوا دینے کی کوشش ہو تو یہ ایک ایسا جرم ہے جس کے لیے عمر قید تک ہوسکتی ہے۔
ہندوستان میں سیڈیشن کا معاملہ باقاعدگی سے درج کیا گیا ہے۔ صرف 2019 میں ملک بھر میں 93 نئےمعاملے درج ہوئے تھے۔
جولائی 2021 میں سپریم کورٹ کے چار سابق ججوں – جسٹس آفتاب عالم، جسٹس مدن بی لوکور، جسٹس گوپال گوڑا اور جسٹس دیپک گپتا نے یو اے پی اے اور سیڈیشن قانون کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
چار سابق ججوں نے کہا تھا کہ آدی واسی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی موت اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ملک کے انسداد دہشت گردی قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یو اے پی اے کی غیر آئینی تشریح آئین کے تحت دیے گئے زندگی کے بنیادی حق، شخصی آزادی اور فوری ٹرائل کے حق کو ختم کرتی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)