اتر پردیش پولیس کے ذریعےاین ایس اے کے تحت گرفتار کیے گئے ڈاکٹرکفیل خان کی حراست رد کر انہیں فوراً رہا کیےجانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا، جسے سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بنچ نے خارج کر دیا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے)کے تحت ڈاکٹر کفیل خان کی حراست کو رد کرنے اور انہیں فوراً رہا کیے جانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر میں دخل اندازی سے انکار کر دیا۔الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک ستمبر کو ڈاکٹر کفیل کی حراست رد کرتے ہوئے انہیں فوراً رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
سی جے آئی ایس اے بوبڈے کی قیادت والی جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رماسبرامنیم کی بنچ نے اتر پردیش سرکار کی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ایک اچھا فیصلہ’ہے۔بنچ نے کہا، ‘ہم فیصلے میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ حالانکہ اس تبصرے سے کسی اور کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔’
ریاست کی جانب سے پیش ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے بنچ سے کہا کہ ہائی کورٹ کی جانب سےکیے گئے تبصرے سے خان کومجرمانہ کارر وائی سے چھوٹ ملتی ہے۔بنچ نے کہا، ‘مجرمانہ معاملوں کا فیصلہ ان کی خوبی اور خامی کی بنیاد پر کیا جائےگا۔’
بتا دیں کہ اس سال 29 جنوری کو اتر پردیش کے ایس ٹی ایف نے شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف اے ایم یو میں دسمبر میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔وہاں وہ سی اےاےمخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔ ڈاکٹر کفیل کو 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی، لیکن آرڈرکے تین دن بعد بھی جیل انتظامیہ نے انہیں رہا نہیں کیا تھا۔
اس کے بعد کفیل کے اہل خانہ نے علی گڑھ کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں ہتک عزت کی عرضی دائر کی تھی۔ عدالت نے 13 فروری کو پھر سے رہائی حکم جاری کیا تھا، مگر اگلی صبح ضلع انتظامیہ نے کفیل پر این ایس اے کے تحت کارر وائی کر دی تھی۔
اس کے بعد ستمبر میں ڈاکٹر کفیل کی ماں کی جانب سے دائر ہیبس کارپس کی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس سومترا دیال سنگھ کی بنچ نے متھرا جیل میں بند رہے کفیل خان پر لگے این ایس اے کے الزامات کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
بنچ نے علی گڑھ ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے13 فروری2020 کو جاری حراست کے آرڈراور اتر پردیش سرکار کے ذریعے اس کی تصدیق کو خارج کر دیا تھا۔اس کے ساتھ ہی این ایس اے کے تحت خان کی حراست کی مدت دو بار بڑھانے کو بھی ہائی کورٹ نے غیرقانونی قراردیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ پچھلے سال دسمبر میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران اے ایم یو میں طلباکو دیا گیا ان کابیان قومی سالمیت اور ایکتا کے لیے تھا اور نفرت اور تشدد پھیلانے کی کوئی کوشش نہیں تھی۔
اپنے آرڈر میں ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت حراست کے آرڈر کو خراب بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اصل منشا کو نظر انداز کرتے ہوئے منتخب طریقے سے پڑھنے اور بیانات سے کچھ جملوں کےانتخاب پر مشتمل تھا۔ہائی کورٹ نے بیان اور این ایس اے کے الزامات میں دو مہینے کے فرق اور حراست کی مدت کو بڑھانے کا حکم خان کو نہ دیے جانے جیسی خامیوں پر دھیان دلایا تھا۔
خان کے جس بیان پر سوال اٹھایا گیا تھا وہ انہوں نے سی اےاے اورمجوزہ این آرسی کے خلاف مظاہرہ کر رہے اے ایم یو طلبا کے اجلاس کو سماجی کارکن اور سوراج پارٹی کےرہنمایوگیندریادو کے ساتھ دیا تھا۔غورطلب ہے کہ ڈاکٹر خان 2017 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب بی آرڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں 60 سے زیادہ بچوں کی موت ایک ہفتہ کے اندر مبینہ طور پر آکسیجن کی کمی سے ہو گئی تھی۔
اس معاملہ کے بعد ڈاکٹرخان کو میڈیکل کالج سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ انہیں وارڈ میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھانے اور ایک نجی پریکٹس چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان الزامات کی وجہ سےکفیل خان کو نو مہینے جیل میں رہنا پڑا تھا۔
ستمبر2017 میں گرفتار ہونے کے بعد اپریل، 2018 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا کہ ڈاکٹر خان پر ذاتی طور پر طبی لاپرواہی کے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ہی ستمبر 2019 میں محکمہ جاتی جانچ کی ایک رپورٹ میں انہیں فرائض کی ادائیگی نہ کرنے کے الزامات سے بھی بری کر دیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)