سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب جانکاری کی بنیاد پرصحافی راجدیپ سردیسائی کے خلاف عدالت کی جانب سے ازخود نوٹس لےکر ہتک کا معاملہ درج کرنے کےسلسلے میں میڈیا میں خبر آئی تھی۔ حالانکہ عدلیہ نےوضاحت دی ہے کہ ایسا غلطی سے ہو گیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے گزشتہ منگل کو دیر رات صاف کیا کہ اس کی ویب سائٹ پر ‘انجانے میں’ دکھایا گیا کہ صحافی راجدیپ سردیسائی کے خلاف ان کے ٹوئٹ کو لےکراز خود نوٹس لیتے ہوئے ہتک کا ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔
عدلیہ کے ڈپٹی رجسٹرار (تعلقات عامہ)راکیش شرما نے کہا، ‘عدلیہ کی جانب سے راجدیپ سردیسائی کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے مجرمانہ ہتک کی کارر وائی شروع کیے جانے سے متعلق کچھ نیوز چینلوں میں چلائی گئی خبروں کے سلسلے میں یہ صاف کیا جاتا ہے کہ راجدیپ سردیسائی کے خلاف ایسی کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔’
انہوں نے کہا،‘حالانکہ عدلیہ کی ویب سائٹ پر معاملہ نمبر ایس ایم سی(سی آرایل) 02/2021 کے سلسلے میں دکھائی گئی جانکاری غلطی کی وجہ سےنظر آ رہی ہے۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے مناسب کارروائی کی جا رہی ہے۔’
اس سے پہلےعدالت کی ویب سائٹ پر دستیاب جانکاری کی بنیاد پر سردیسائی کے خلاف از خود نوٹس لےکرہتک کے معاملے کے سلسلے میں میڈیا میں خبر آئی تھی۔
SC clarifies that no contempt proceedings have been initiated against #RajdeepSardesai. The status as shown on the court website regarding a suo motu case was put there inadvertently and the same is being corrected. https://t.co/cRAH1At16r
— The Leaflet (@TheLeaflet_in) February 16, 2021
یہ بتایا گیا تھا کہ یہ معاملہ آستھا کھرانہ کی جانب سے وکیل اوم پرکاش پریہار کے ذریعے ایک عرضی دائر کیے جانے کے بعد درج کیا گیا ہے اورعرضی میں آئین کے آرٹیکل 129 کے تحت سردیسائی کے خلاف ہتک کی کارر وائی شروع کرنے کے لیےملک کے چیف جسٹس سے گزارش کی گئی ہے۔
حالانکہ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل کےکے وینوگوپال نے 17 ستمبر 2020 کو سردیسائی کے خلاف ہتک کی کارروائی شروع کرنے کے لیے رضامندی دینے سے انکار کر دیا تھا۔آئین کے آرٹیکل 129 کےمطابق سپریم کورٹ ریکارڈ عدالت ہوگی اور اس کو ہتک کے لیےسزا دینے کااختیار سمیت ایسے عدلیہ کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔
سردیسائی پر الزام لگایا گیا تھا کہ عدالت نے ماضی میں متعدد تاریخی فیصلےکیے ہیں اور انہوں نے ہر فیصلے پرمتعدد توہین آمیز تبصرے کیے ہیں اور عدالت کی غیرجانبداری اور بھروسے پر سوال اٹھائے ہیں۔عرضی میں وکیل پرشانت بھوشن پر عدالت کی ہتک کے لیے ایک روپے کا جرمانہ لگانے کے عدلیہ کے فیصلے کے سلسلے میں سردیسائی کے ذریعے31 اگست2020 کو کیے گئے ٹوئٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔
سردیسائی نے بھوشن کو عدالت کی ہتک کا قصوروارٹھہرائے جانے پر کہا تھا، ‘سپریم کورٹ کے ذریعےپرشانت بھوشن کے خلاف ہتک معاملے میں ایک روپے کا جرمانہ لگایا گیا ہے۔اگر وہ اس کی ادائیگی نہیں کرتے ہیں تو تین مہینے کی جیل ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کورٹ خود کے ذریعے پیدا کی گئی شرمندگی کی حالت سے بچنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔’
اس کے علاوہ بھوشن کے سلسلے میں ایک اور ٹوئٹ جس کا ذکرعرضی میں کیا گیا ہے،اس میں صحافی نے کہا تھا، ‘پرشانت بھوشن کو عدالت کی ہتک کاقصوروارٹھہرایا گیا ہے اور 20 اگست کو اسے لےکر سزا سنائی جائےگی۔ یہ سب ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب کشمیر میں ایک سال سے زیادہ عرصے کے لیے حراست میں لیے گئے لوگوں کی عرضیاں زیر التوا ہیں۔’
راجدیپ سردیسائی کے سال 2019 کے بھی ایک ٹوئٹ کو لےکرالزام لگائے گئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا، ‘پچھلے ہفتے ایک جج نے مجھے بتایا کہ ایودھیا کیس سیاسی نہیں ہے!آرٹیکل 370 کیس کی شنوائی سے پہلے کیا سی جےآئی کشمیر بھی جائیں گے۔ مسٹر گگوئی آپ سی جے آئی ہیں، ڈی جی پی نہیں! کم سے کم فی الحال تو نہیں ہی ہیں۔’
بتا دیں کہ سپریم کورٹ کی مجرمانہ ہتک قابل سزا ہے اور اس پر 2000 روپے تک کا جرمانہ اور چھ مہینے تک کی قید کی سزا کا اہتمام ہے۔
اٹارنی جنرل نے پچھلے سال 17 ستمبر کو ہتک کارروائی شروع کرنے کے لیے رضامندی دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا، ‘میں نے ٹوئٹ پر غور کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سردیسائی کی جانب سے دیے گئے بیان اتنے سنگین نہیں ہیں کہ ان سے عدلیہ کاوقار کم ہو یا لوگوں کے دل میں عدالت کا قد چھوٹا ہو جائے۔’
کسی شخص کے خلاف ہتک کی کارروائی شروع کرنے کے لیےعدالت کی ہتک قانون، 1971 کی دفعہ15 کے تحت اٹارنی جنرل یا سالیسیٹر جنرل کی رضامندی ضروری ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)