چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس بی آئی کو اپنے پاس دستیاب تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اس میں خریدے گئے الیکٹورل بانڈ کا الفا نیومیرک نمبر اور سیریل نمبر، اگر کوئی ہو تو، شامل ہوں گے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (18 مارچ) کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو 12 اپریل 2019 کے بعد خریدے اور کیش کرائے گئے الیکٹورل بانڈ سے متعلق تمام تفصیلات جمعرات شام 5 بجے تک الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔تفصیل میں بانڈ سے متعلق یونک کوڈ بھی شامل ہیں۔ وہیں، الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ تفصیلات موصول ہونے کے بعد انہیں اپنی ویب سائٹ پر ‘فوراً’ شائع کرے۔
رپورٹ کے مطابق ، عدالت نے یہ تفصیلات پہلے جاری نہیں کرنے کے لیے ایس بی آئی کی سرزنش کی اور کہا کہ حکم سے یہ واضح ہونا چاہیے تھا کہ تمام تفصیلات کو عام کیا جانا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا،’…اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایس بی آئی کو اپنے پاس دستیاب تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اس میں خریدے گئے بانڈ کا الفا نیومیرک نمبر اور سیریل نمبر، اگر کوئی ہو، شامل ہوں گے۔ ‘
سینئر وکیل ہریش سالوے نے ایس بی آئی کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عدالت جو بھی تفصیلات چاہتی ہے بینک دینے کو راضی ہے۔
سی جے آئی چندرچوڑ نے کہا، ‘فیصلے میں ہم نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے ‘تمام تفصیلات’ ظاہر کرنے کو کہا تھا۔ جس میں بانڈ نمبر بھی شامل ہیں۔ بینک تمام تفصیلات کو ظاہر کرنے میں چنندہ طریقے سے کام نہیں لے سکتا۔ اس عدالت کے احکامات کا انتظار نہ کریں۔’
جیسا کہ دی وائر کی رپورٹ میں کہا گیاہے، سپریم کورٹ کی ہدایات پر ایس بی آئی اور ای سی آئی کی طرف سے گزشتہ ہفتے جاری کی گئی جانکاری میں وہ اہم تفصیلات شامل نہیں تھیں جس سے یہ پتہ لگانے میں مدد ملتی کہ کون سے کاروباری اور افراد کن پارٹیوں کو ادائیگی کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ لین دین کے انتظامات کی تفصیلات ابھی تک عام نہیں کی گئی ہے۔
دریں اثنا، سوموار کو ایک صنعتی ادارہ ایسوچیم نے الیکٹورل بانڈز سے متعلق مخصوص نمبروں کے عوامی انکشاف کے خلاف مبینہ طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سینئر وکیل مکل روہتگی نے سوموار کو عدالت میں مداخلت کرنے اور ایف آئی سی سی آئی اور ایسوچیم کی جانب سے بات رکھنے کی کوشش کی، لیکن چیف جسٹس نے انہیں یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ ، ‘ہمارے پاس ایسی کوئی عرضی نہیں آئی ہے۔’