ہیٹ اسپیچ کے لیے انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست پر پولیس کو نوٹس

سی پی آئی (ایم) لیڈربرندا کرات اور کے ایم تیواری کی جانب سےمرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما کے خلاف ہیٹ اسپیچ پر ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل والی عرضی نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ خارج کر چکے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں دہلی پولیس کو نوٹس بھیجا ہے۔

سی پی آئی (ایم) لیڈربرندا کرات اور کے ایم تیواری کی جانب سےمرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما کے خلاف ہیٹ اسپیچ پر ایف آئی آر درج کرنے کی اپیل والی عرضی نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ خارج کر چکے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں دہلی پولیس کو نوٹس بھیجا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (17 اپریل) کو سی پی آئی (ایم) لیڈر برندا کرات اور کے ایم تیواری کے ذریعےمرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی ایم پی پرویش ورما کے خلاف 2020 میں دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف احتجاجی مظاہروں کے دوران  ان کے نفرت انگیز تقاریر کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کیے جانے کی عرضی پردہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بنچ نے معاملے کو تین ہفتے بعد شنوائی  کے لیےلسٹ کیا ہے۔

ٹرائل کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ نے کچھ تکنیکی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے شنوائی کے لیے ان کی عرضی لینے سے انکار کرنے کے بعد درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 26 اگست 2021 کو ٹرائل کورٹ نے درخواست گزاروں کی شکایت کو اس بنیاد پر خارج کر دیا تھاکہ یہ مجاز اتھارٹی –  جو اس معاملے میں مرکزی حکومت ہے ،سے مطلوبہ منظوری نہ ملنے کی وجہ سے یہ عدالت میں ٹکنے کے قابل  نہیں تھی – بعد میں، جون 2022 میں، دہلی ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے  میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس پر، سپریم کورٹ نے کہا کہ نچلی عدالتوں کا یہ نتیجہ کہ نوٹس لینے سے پہلے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 196کے تحت منظوری ضروری ہے، غلط ہو سکتا ہے۔ مذکورہ سیکشن ریاست کے خلاف جرائم اور ایسے جرائم کے ارتکاب کی مجرمانہ سازش کے لیے قانونی چارہ جوئی سے متعلق ہے۔

دی ہندو کے مطابق، تقریر کے اس حصے،جہاں ٹھاکر نے ‘دیش کے غداروں کو گولی مارو٭٭٭کو’ کہا تھا، کا  حوالہ دیتے ہوئے عدالت کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ مرکزی وزیر نے ‘گولی مارو’ کسی میڈیکل سیاق و سباق میں تو نہیں کہا ہوگا۔

سی پی آئی (ایم)کے رہنماؤں نے ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنی شکایت میں دعویٰ کیا تھا، ٹھاکر اور ورما نے لوگوں کو اکسانے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں دہلی میں دو مختلف احتجاجی مقامات پر فائرنگ کے تین واقعات پیش آئے۔

انہوں نے ذکر کیا تھا کہ دہلی کے ریٹھالہ میں ہوئی ایک ریلی میں ٹھاکر نے 27 جنوری 2020 کو بھیڑ کو اکسانے کے لیے ‘غداروں کو گولی مارو’ کا اشتعال انگیز نعرہ لگایا تھا۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا تھاکہ ورما نے 28 جنوری 2020 کو شاہین باغ میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تبصرہ کیا تھا۔

دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے جنوری 2020 میں انوراگ ٹھاکر کو ‘دیش کے غداروں کو…’ کے نعرے کے ساتھ ایک ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے جواب میں بھیڑ نے ‘گولی مارو سالوں کو’ دہرایا تھا۔

دوسری طرف پرویش ورما نے شاہین باغ کے مظاہرین کو ‘ریپسٹ اور قاتل’ کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ شاہین باغ کے مظاہرین آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کی بہن بیٹیوں کا ریپ کر سکتے ہیں۔

درخواست گزاروں نے ان کی درخواست پر نچلی عدالت اور ہائی کورٹ کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کو غلط مانا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ دہلی پولیس نے اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات کی تھی اور نچلی عدالت کومطلع کیا تھا کہ ابتدائی طور پرکوئی قابل دست اندازی  جرم  کا معاملہ نہیں بنتا ہےاور کسی بھی جانچ کا حکم دینے کے لیےنچلی عدالت کواس کے سامنے ان کو حقائق اور شواہدکو نوٹس میں لینے کی ضرورت ہے، جو جائز منظوری کے بغیر قابل قبول  نہیں ہے۔

درخواست گزاروں نے کہا کہ اسی وجہ سے وہ سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔ دی ہندو کے مطابق، انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت153اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153بی (قومی یکجہتی کے لیے مضر دعوے/الزامات) اور 295اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی عمل ،جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) شامل ہیں ، کے تحت ان رہنماؤں کے خلاف معاملہ درج کرے۔