کورٹ نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر بھی مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں لگی پابندیوں کو ختم کرنے کو لےکر دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور سات دن کے اندر اس پر تفصیلی جواب دائر کرنے کو کہا ہے۔واضح ہو کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے ریاست میں فون لائن اور انٹرنیٹ خدمات بند کرنے، میڈیا کو خبریں چھاپنے سے روکنے جیسی کئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اسی معاملے کو لےکر ‘ کشمیر ٹائمس ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھسین نے عدالت میں
عرضی دائر کرکے ریاست میں موبائل انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات سمیت مواصلات کے تمام ذرائع کو بحال کئے جانے کی مانگ کی تھی تاکہ میڈیا صحیح سے اپنا کام شروع کر پائے۔اس کے علاوہ کورٹ نے جموں و کشمیر سے ہی جڑی دوسری عرضی کی بھی سماعت کی۔ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کے دوران کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔
کورٹ نے حکم دیا کہ اس معاملے کو لےکر دائر تمام عرضی پر سماعت اکتوبر کےمہینے سے پانچ ججوں والی آئینی بنچ کرےگی۔ مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کافی زور دےکر کورٹ سے گزارش کی کہ وہ اس معاملے میں نوٹس جاری نہ کریں کیونکہ اس کا دوسرا ملک غلط استعمال کر سکتے ہیں۔حالانکہ کورٹ نے مہتہ کی اس دلیل کو منظور نہیں کیا اور مودی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔ کورٹ نے جموں و کشمیر کے لئے ایک مذاکرہ کار کی تقرر ی کی مرکز کی مانگ کو بھی ٹھکرا دیا۔
اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے ہی تناظر میں Habeas corpus عرضیاں دائر کی گئی تھیں۔ اس میں سے ایک جموں و کشمیر کے محمد علیم سعید کے ذریعے دائر عرضی پر کورٹ نے ہدایت دی کہ درخواست گزار کو جموں و کشمیر میں ان کی فیملی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ آگے کی سماعت کے لئے معاملے کولسٹ کیا جائےگا۔وہیں سی پی آئی ایم کے رہنما سیتارام یچوری کے ذریعے دائر ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے یچوری کو ان کی پارٹی کے محمد یوسف تاریگامی سے ملنے کی اجازت دی، جو کشمیر میں نظربند ہیں۔ کورٹ نے یچوری سے کہا کہ وہ اپنے دوست سے ملنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کریںگے۔