ہندوستان میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 115 بار آئین کی دفعہ 356 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف اب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیامنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔
اگست 2019میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور پانچ رکنی بنچ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اس قدم کو
جائز ٹھہرایا ہے۔
ویسے سپریم کورٹ میں 16دنوں تک چلنی والی طویل بحث کے بعد کورٹ کی طرف سے اس کی خود مختاری کو بحال کرنے کے بارے میں کوئی خوش فہمی تو نہیں تھی، مگر امید تھی کہ ریاست کو دولخت کرنے اور اس کو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے لیے کورٹ حکومت کی سرزنش ضرورکرے گی، کیونکہ اس کی نظیر ہندوستان کے دیگر صوبو ں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
پچھلے ستر سالوں میں ہندوستان میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 115 بار آئین کی دفعہ 356 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔
اپوزیشن کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف اب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیامنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔
افضل گورو کو سزائے موت دینے کے فیصلہ کو اجتماعی ضمیر سے جوڑنے اور بابری مسجد کے معاملہ پر عجیب و غریب فیصلہ دینے کے بعد کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر کسی مثبت فیصلہ کی شاید ہی کوئی امید تھی۔خیر بابری مسجد پر خود کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ اس کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں بابری مسجد کی زمین ہندو یا مسلم فریق کو دینے کے بجائے بھگوان رام للا کو دے دی گئی تھی اور کورٹ نے جو قانونی سوالات طے کیے تھے، فیصلہ کے وقت ان کو درکنار کردیا۔
دواگست سے شروع ہونے والی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے کو مکمل ہو گئی تھی اور کورٹ نے فیصلہ کو محفوظ رکھا تھا۔ عدالت میں 13515صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ 28جلدوں پر مشتمل 16111 صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی تھیں۔ کئی شہرہ آفاق کتابیں
دی فیڈرل کانٹریکٹ: اے کانسٹی ٹیوشنل تھیوری آف فیڈرل ازم اور
دی ٹرانسفر آف پاور بھی کورٹ کے سپرد کر دی گئی۔
چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اورجسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ یہ طے تھا کہ دسمبر کے وسط میں فیصلہ آئےگا، کیونکہ جسٹس کول دسمبر میں ہی ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج ہیں۔
گو کہ پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا، مگر تین الگ فیصلے لکھے گئے۔ ایک چیف جسٹس نے جسٹس گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر تحریر کیا۔ جسٹس کول نے الگ سے اپنے تاثرات تحریر کیے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے دونوں فیصلوں سے اتفاق کیا اور صرف کچھ معاملات میں اپنی رائے رکھی۔
اس آئینی بنچ کے سامنے آٹھ معاملات تھے۔ ہندوستان آئین میں درج آرٹیکل 370 کی دفعات کو عارضی یا مستقل حیثیت حاصل ہے اور کیا دستاویز الحاق پر دستخط ہونے کے وقت مہاراجہ کشمیر کے کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے، جو ریاستی حکومت کو منتقل ہوگئے؟ کیونکہ یہی دفعہ جموں و کشمیر کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس خطے کی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے شہریت کا الگ قانون تھا۔
دوسرا معاملہ تھا، چونکہ یہ قانون آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا اورطے تھا کہ قانون ساز اسمبلی ہی اس میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اگست 2019کو مودی حکومت نے پارلیامنٹ کو پہلے قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کیااور پھر اس کے ذریعے دفعہ 370میں ترمیم کروائی۔ کورٹ کے سامنے سوال تھا کہ کیا آئین اس میکانزم کی اجازت دے سکتا ہے؟
تیسرا سوال تھا کہ کیا آرٹیکل 370(1)(ڈی) کے تحت طاقت کے ذریعے ہندوستان کا پورا آئین ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ چوتھا سوال تھا کہ کیا آرٹیکل 370(3) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفا رش کے بغیر ہندوستانی صدر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرسکتا ہے؟
اس کے علاوہ دیگر سوالات جو فریم کیے گئے تھے، وہ تھے کہ کیا 2018 میں گورنر کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنادرست قدم تھا؟ اس کے چھ ماہ بعد کیا ریاست میں صدراتی راج کا نفاذ درست تھا؟ کیا جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت ریاست کو دولخت کرنا آئینی طور پر درست تھا؟
کیا ریاست کی حدود کو ریاستی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک ہندوستان میں جو بھی نئے صوبے وجود میں آئے ہیں، ان کی سفارش مقامی اسمبلی نے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی۔ اس کے علا وہ کیاکسی فعال صوبہ کو راتوں رات مرکزی زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ دفعہ 370ایک عارضی انتظام تھا اور1947 میں یونین آف انڈیا میں شمولیت کے وقت مہاراجہ نے کوئی اختیار اپنے پاس نہیں رکھا تھا، بلکہ تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے۔ نومبر 1949کو اس وقت کے صدر ریاست ڈاکٹرکرن سنگھ کا حوالہ دیکر عدالت نے کہا کہ ہندوستانی آئین ریاستی آئین پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں و کشمیر کسی بھی ایسی داخلی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے، جو دیگر صوبوں کو مہیا نہ ہو۔ آرٹیکل 370(1)(ڈی) کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ متعدد آئینی احکامات جو آئین کی مختلف دفعات کا ترامیم کا اطلاق کرتے ہیں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلے ستر سالوں کے دوران، یونین اور ریاست نے باہمی تعاون کے ذریعے آئینی طور پر ریاست کو یونین کے ساتھ ضم کر دیا۔عدالت نے کہا کہ اچانک ستر سال بعد پورے ہندوستانی آئین کو لاگو نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے آئینی انضمام کا عمل جاری تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں 3 جولائی 1947 کو سردار پٹیل کے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جو انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو لکھا ہے۔”کشمیر کے مفادات بغیر کسی تاخیر کے ہندوستانی یونین اور اس کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے میں مضمر ہیں اور یہ کہ اس کی ماضی کی تاریخ اور روایت اس کا تقاضہ کرتی ہے، اور ہندوستان آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور آپ سے یہ فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے۔” اسی طرح 27 ستمبر 1947 کو نہرو نے سردار پٹیل پر زور دیا ”پاکستانی حکمت عملی یہ ہے کہ اب کشمیر میں دراندازی کی جائے اور جیسے ہی کشمیر آنے والے موسم سرما کی وجہ سے کم و بیش الگ تھلگ ہو جائے کوئی بڑی کارروائی کی جائے۔“ یعنی ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے الحاق پر جلد کارروائی کی جائے۔ ہندوستان میں جو لوگ نہرو کو کشمیر پر فیصلہ نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اور پاکستان میں جو افراد قبائلی حملہ کو ہی کلی طور پر مسئلہ کشمیر کی پیداوار قرار دیتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ انفارمیشن ہوگی کہ بساط اکتوبر سے بہت پہلے ہی بچھائی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ چونکہ آئین کی تمام دفعات کو ریاست پر لاگو کرنے کے لیے آرٹیکل 370(1)(ڈی) کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے صدر نے ہندوستانی حکومت کی رضامندی حاصل کی۔ریاستی آئین کی بحالی کے حوالے سے عدالت نے دلیل دی کہ ہندوستانی آئین کے کچھ حصوں کے عدم اطلاق سے جو خلا رہ گیا تھا اسے ریاستی آئین پور ا کرتا تھا۔ اب آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد چونکہ پورے ہندوستانی آئین کا اطلاق اب ریاست پر ہوتا ہے اس لیے اب ریاستی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اب غیر فعال ہوگیاہے۔
عدالت نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکزی علاقہ تسلیم کیا، یعنی ریاست کے دو لخت پر بھی مہر لگائی۔ مگر عدالت نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لےکر سوال کیا کہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہائی کرائی ہے کہ کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ مرکزی زیر انتظام والی حیثیت عارضی ہے۔ عدالت نے پھر اس پر کوئی آرڈر نہیں دیا، بلکہ امید ظاہر کی کہ جلد ہی ریاستی حیثیت بحال کی جائےگی۔ مگر الیکشن کے حوالے اس اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ ریاست میں ستمبر 2024تک اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہیے۔ لداخ کی بطور یونین ٹریٹری حیثیت برقرار رہے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست سے کسی بھی علاقے کو الگ کرکے یونین ٹریٹری بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
جسٹس سنجے کشن کول، جوسپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج، اور اس بنچ کے رکن تھے، نے الگ سے اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس خطے نے انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تجویز دی کہ جنوبی افریقہ کی طرز پر ایک سچائی اور مفاہمت کا ایک کمیشن ترتیب دیا جائے، جہاں متاثرین اپنا درد بیان کرسکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں زمینی سطح پر ایک پریشان کن صورت حال تھی جس کا بظاہر ازالہ نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں زخموں کو بھرنے اور سماجی تانے بانے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر سوال ہے کہ کیا اس مفاہمتی یا مصالحتی کمیشن کے سامنے فوج اور سیکورٹی سے وابستہ وہ ا فسران حاضر ہوں گے، جو علی الاعلان ا پنے گناہوں کا اعتراف کریں گے؟خیر یہ تجویز بری نہیں ہے، مگر اس کمیشن کا قیام پھر کسی آزاد ادارہ کے تحت ہونا چاہیے۔ کشمیر میں جو واقعات پچھلی تین دہائیوں میں رونما ہوئے، ان کو ریکارڈ کرنا از حد ضروری ہے۔ خیر سپریم کورٹ کے اس جج نے اس قدر تسلیم تو کیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔