چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور سوریہ کانت کی بنچ نے مرکز سے کہا کہ وہ اس بارے میں سبھی عرضیوں پر جنوری کے دوسرے ہفتے تک جواب دائر کریں۔
یہ بھی پڑھیں:شہریت ترمیم بل کو صحیح ٹھہرا نے کے لیے امت شاہ کے دلائل جھوٹ سے بھرے ہو ئے ہیں
اس طرح تعصب آمیز ہونے کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کے سیکولر تانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ اور اس کے 4 ایم پی ،ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا،کانگریس ایم پی جئے رام رمیش، پیس پارٹی آف انڈیا، جن ادھیکار پارٹی، دو ریٹائرڈ آئی اے ایس افسروں کے ساتھ ہندوستان کے ایک سابق سفیر، آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، آسام میں اپوزیشن کے رہنمادیب برتا سیکیا، سٹیزن اگینسٹ ہیٹ، رہائی منچ، لوک سبھا ایم پی اسدالدین اویسی، کیرل ایم ایل اےٹی این پرتھاپن،کمل حسن کی پارٹی مکل ندھی میم،تریپورہ رہنما پردت دیب برمن، آسام گن پریشد، کیرل میں اپوزیشن کے رہنمارمیش چینی تھالا،ڈی وائی ایف آئی، ڈی ایم کے، شہری حقوق کارکن ہرش مندر، عرفان حبیب، نکھل ڈے اور پربھات پٹنایک، آسام جمیعۃ العلماءہند، راجیہ سبھا ایم پی منوج کمار جھا سمیت دیگر عرضی گزاروں میں شامل ہیں۔