شہریت ترمیم قانون کو آئینی قرار دینے کی مانگ والی ایک عرضی پر سماعت کے دوران چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا، ’ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ہماری کوشش امن بحال کرنے کی ہونی چاہیے۔ ‘
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے جمعرات کو کہا کہ شہریت ترمیم قانون کے آئینی ہونے کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر کورٹ ملک بھر میں ہو رہے تشدد رکنے کے بعد سماعت کرےگی۔ چیف جسٹس کی رہنمائی والی بنچ کے سامنے وکیل ونیت دھندا نے ایک عرضی کا ذکر کیا جس میں مانگ کی گئی ہے کہ متنازع شہریت قانون کو آئینی قرار دیا جائے۔ اسی معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس بوبڈے نے یہ تبصرہ کیا۔
بنچ میں بوبڈے کے علاوہ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت بھی ہیں۔
لائیو لاء کے مطابق بنچ نے کہا، ‘ بہت زیادہ تشدد ہو رہا ہے۔ ‘ انہوں نے آگے کہا، ‘ ہم کیسے پارلیامنٹ کے قانون کو آئینی قرار دے دیں؟ ہمیشہ آئینی نظام کا اندازہ ہوتا ہے! آپ کبھی قانون کے طالب علم رہے ہوںگے۔ آپ کو ضرور یہ جاننا چاہیے… پہلی بار میں ایسی عرضی سن رہا ہوں۔ عدالت کو قانون کا جواز طے کرنا ہوتا ہے، یہ اعلان نہیں کرنا ہے کہ قانون آئینی ہے۔ ‘
بنچ نے آگے کہا، ‘ ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ہماری کوشش امن بحال کرنے کی ہونی چاہیے۔ ایسی عرضیاں کسی کام کی نہیں ہیں۔ ‘ ونیت دھندا کے ذریعے دائر عرضی میں یہ بھی مانگ کی گئی تھی کہ اخبار، الکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع سے اس قانون کی تشہیر کی جانی چاہیے اور یہ واضح کیا جانا چاہیے کہ یہ قانون آئین کے جذبہ اور ملک کے شہریوں کے خلاف نہیں ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی مانگ کی کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کرکے کہا جائے کہ وہ ایسے سیاسی جماعتوں کی پہچانکرکے سخت کارروائی کریں جو مبینہ طور پر اس قانون کے نام پر جھوٹی جانکاری پھیلا رہے ہیں اور ملک میں تشدد بھڑکا رہے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کو بھی یہ ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ وہ اپنی متعلقہ ریاستوں میں اس قانون کو فوراً نافذ کریں۔ بنچ نے کہا کہ اس عرضی پر سماعت شہریت قانون کے بارے میں دائر کی گئیں دیگر عرضیوں کے ساتھ میں ہوگی۔
گزشتہ 18 دسمبر کو سپریم کورٹ نے شہریت ترمیم قانون کےخلاف دائر کئی عرضیوں پر
مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا اس ترمیم قانون میں بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان میں ظلم و ستم جھیلنے والے غیر مسلوں کو شہریت مہیا کرانے کا اہتمام ہے۔اس میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
اس طرح تعصب آمیز ہونے کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کے سیکولر تانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔