سی بی آئی کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے خلاف رشوت معاملے کی جانچکر رہے ڈی ایس پی،اے کے بسی نے اپنے تبادلے کو بدنیتی سے متاثر بتاتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ سی بی آئی کو چھے ہفتوں میں دینا ہوگا جواب۔
سی بی آئی ڈی ایس پی اے کے بسی۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو سی بی آئی کے ڈی ایس پی اے کے بسی کی
اس اپیل پرسی بی آئی سے جواب مانگا، جس میں بسی نے اپنا تبادلہ پورٹ بلیئر کئے جانے کو چیلنج کیا ہے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس سنجیو کھنّہ کی بنچ نے سی بی آئی کو ایک نوٹس جاری کر کے 6 ہفتے میں جواب مانگا ہے۔بسی نے 21 جنوری کو اپنے تبادلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بدنیتی سے متاثر ہے اور اس سے سی بی آئی کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے خلاف جانچ متاثر ہوگی۔
بسی کی طرف سے پیش سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ یہ معاملہ سی بی آئی کے انتظامیہ پر سوال اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے جانچ کی پاکیزگی بھی متاثر ہوگی۔بسی کے تبادلے کا حکم 11 جنوری کو جاری ہوا تھا۔ اس حکم کو چیلنج دیتے ہوئے بسی نے کہا کہ سابق سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک کمار ورما کی اپیل پر عدالت نے جو حکم جاری کئے تھے،یہ اس کی خلاف ورزی ہے۔
استھانا کے خلاف بد عنوانی کے معاملے کے جانچ اہلکار بسی نے کہا کہ سی بی آئی کے موجودہ عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ راؤ سی بی آئی میں موجود ان عناصر کی نمائندگی کر رہے ہیں جو نہیں چاہتے کہ وہ استھانا کے خلاف ایف آئی آر کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش کریں۔
بسی نے کہا کہ راؤ نے 24 اکتوبر 2018 کو ایک حکم جاری کرکے ان کا تبادلہ پورٹ بلیئر کر دیا۔ راؤ کے ہی کہنے پر ان کو، سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما کے معاملے میں اس عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کرکے انڈمان نکوبار بھیجا جا رہا ہے۔ورما سے حالانکہ ایک اعلیٰ اختیار حاصل سلیکشن کمیٹی نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی ذمہ داری لے لی اورفائر سروس کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ان کا تبادلہ کر دیا۔
بسی نے کہا کہ ایسا خدشہ ہے کہ یہ تبادلہ یا تو ان کو جھوٹے مجرمانہ معاملوں میں پھنسانے یا ان کے خلاف شعبہ جاتی تفتیش کی سمت میں پہلا قدم ہے کیونکہ انہوں نے استھانا کے خلاف ایف آئی آر کے معاملے میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسر کے تبادلے کا عام معاملہ نہیں ہے۔
ورما کے معاملے میں دئے گئے درخواست میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا تبادلہ اس گہری سازش کے تحت ہے جس کا مقصد استھانا کے خلاف تفتیش کو متاثر کرنا ہے اور معاملے میں آزاد انہ اور غیر جانبدارانہ طریقے سے تفتیش کرنے کے لئے ان کو پریشان کرنا ہے۔بسی نے کہا کہ سی بی آئی میں کام کرتے ہوئے وہ کسی بھی گروپ کا حصہ نہیں رہے اور ایجنسی میں اٹھے مبینہ تنازعات سے ان کا کوئی لینا-دینا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایسے کسی بھی معاملے میں تفتیشی ٹیم کا حصہ بننے کا حق نہیں مانگا جس کی تفتیش سی بی آئی کر رہی ہے یا جو ٹیم استھانا کے خلاف ایف آئی آر کی جانچکر رہی ہے۔اس سے پہلے گزشتہ30 اکتوبر 2018 کو بھی، راکیش استھانا کے خلاف جانچکر رہے سی بی آئی افسر اے کے بسی نے اپنے تبادلے کو
سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔24 اکتوبر 2018 کو مرکزی حکومت کے ذریعے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما اور خصوصی ڈائریکٹر راکیش استھانا کو چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد استھانا کے خلاف جانچکر رہے 13 سی بی آئی افسروں کا بھی تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
آلوک ورما کے ڈپٹی ایس پی اے کے بسی ان میں سے ایک تھے۔ ورما کو چھٹی پر بھیجے جانے کے بعد سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹر بنائے گئے ایم۔ ناگیشور راؤکے حکم پر اے کے بسی کا انڈمان اور نکوبار کے پورٹ بلیئر میں تبادلہ کر دیا گیا تھا اور ان کو وہاں سی بی آئی کی بد عنوانی مخالف شاخ کا ڈپٹی ایس پی بنایا گیاتھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
The post
ڈی ایس پی اےکے بسی کے تبادلے پر سپریم کورٹ نے سی بی آئی سے مانگا جواب appeared first on
The Wire - Urdu.