سپریم کورٹ نے 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق سازش کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، میران حیدر اور شفا الرحمان کی درخواست ضمانت پر دہلی پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ ملزمین کے وکیلوں نے بتایا کہ وہ پانچ سال سے جیل میں ہیں اور ہم نے دیوالی سے قبل سماعت کی اپیل کی ہے۔
سپریم کورٹ. (تصویر: سنتوشی مرکام/دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (22 ستمبر) کو 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق ‘سازش’ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، میران حیدر اور شفا الرحمان کی ضمانت کی درخواستوں پر دہلی پولیس سے جواب طلب کیا۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس اروند کمار اور این وی انجاریا کی بنچ نے نوٹس جاری کیا اور اگلی سماعت 7 اکتوبر کو مقرر کی۔ بنچ نے کہا کہ،’ہم جمعہ کو اس کی سماعت نہیں کر سکے کیونکہ جسٹس منموہن اس کی سماعت نہیں کر سکے ۔’
جب ملزمان کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے بتایا کہ وہ پانچ سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں تو عدالت نے کہا کہ ہاں ہم آپ کی بات سن کر معاملے کوحل کریں گے۔’
سینئر وکیل کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی ملزمین کی طرف سے پیش ہوئے۔ سبل نے عدالت سے درخواست کی، ‘براہ کرم دیوالی سے پہلے اسے سن لیں تاکہ وہ دیوالی سے پہلے باہر آ سکیں۔’
فاطمہ کی جانب سے پیش ہوئےوکیل سنگھوی نے مزید
کہا ،’یہ حیران کن ہے کہ ایک طالبعلم پانچ سال سے جیل میں ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی موکل نے عبوری ضمانت کی درخواست بھی دی ہے اور عدالت سے اس معاملے پر بھی نوٹس جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔
خالد اور دیگر نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا ۔ ان پانچوں درخواست گزاروں کے ساتھ ہائی کورٹ نے کارکنوں خالد سیفی، اطہر خان، محمد سلیم خان، اور شاداب احمد کو بھی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، استغاثہ کے اس دعوے کی حمایت کی تھی کہ فسادات ‘عمومی احتجاج’ نہیں تھے بلکہ ‘پہلے سے سوچی سمجھی سازش’ تھے۔
غور طلب ہے کہ عمر خالد 14 ستمبر 2020 کو اپنی گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔ ان پر 2020 کے فسادات کے پیچھے بڑی سازش سے متعلق ایک کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے، جس میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
معلوم ہو کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
غور طلب ہے کہ عمر خالد 14 ستمبر 2020 کو اپنی گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔ ان پر 2020 کے فسادات کے پیچھے بڑی سازش سے متعلق ایک کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان دنگوں میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
معلوم ہو کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
عمر اور کیس کے دیگر ملزمان نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔ وہ 2020 سے جیل میں ہیں اور نچلی عدالت کی جانب سے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تاہم، فسادات سے متعلق دہلی پولیس کی تحقیقات کو عالمی سطح پر متعصبانہ اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دسمبر 2022 کے اوائل میں دہلی کی ایک عدالت نے عمر خالد اور کارکن خالد سیفی کو 2020 کے فسادات سے متعلق ایک کیس میں بری کر دیا تھا۔