سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کی بات کر کے ملک کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، لیکن جہاں تک اس سلسلے میں’مرکز کے خاموش تماشائی بن کر بیٹھنے’ والے سوال کی بات ہے تویہ سوال پوچھنے والے کو بھی پتہ ہے اور ملک کی عوام کو بھی کہ اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے بدھ کو ملک میں ہیٹ اسپیچ کے روز افزوں مسئلے کے سلسلے میں دو بڑے سوال پوچھے۔پہلا یہ کہ اس کی وجہ سے ملک کدھر جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ مرکز اس پر لگام لگانے اور اس کو روکنے کی فکر کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھا ہے؟
جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی رکنیت والی بنچ نے مرکز کو اس بات کے لیےبھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ہیٹ اسپیچ کو ‘چھوٹی بات’ سمجھ رہا ہے اور لاء کمیشن کی 2017 کی رپورٹ کےسلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہا، جس میں ہیٹ اسپیچ کی تعریف کے معیارات تجویز کیے گئے ہیں۔
عدالت نے ا سے دو ہفتوں میں ہیٹ اسپیچ سے نمٹنے میں اب تک کی گئی کارروائیوں کی رپورٹ پیش کرنے کو بھی کہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہاہے کہ جب تک وہ ہیٹ اسپیچ کے حوالے سے ایک مؤثر قانونی فریم ورک نہیں بنالیتا، اس کی تعریف طے کرنے کے لیے رہنما اصول وضع کر سکتا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ سب سے زیادہ ہیٹ اسپیچ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں ان دونوں میڈیم کے اینکروں کی سرزنش کرتے ہوئے نیشنل براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (این بی اے) کی اس وضاحت کو ماننے سے انکار کر دیا ہےکہ اس کے لیے سزا کا اہتمام ہے اور کہا کہ اس کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ مسئلہ تو پھر بھی برقرار ہے۔
یہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ عدالت نے ہیٹ اسپیچ کے بہانے ملک کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھا ہے اور اس دکھ کو دور کرنے میں مرکزی حکومت کی کاہلی کے سلسلے میں اس سے کیفیت طلب کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس فکر میں بھی حصہ لیا کہ اس کی وجہ سے ملک کہاں جا رہا ہے۔
لیکن جہاں تک اس کے اس سوال کا تعلق ہے کہ مرکز کیوں خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہے، مرکز اسے اس سوال کا جو بھی جواب دے، پوچھنے والے کو بھی پتہ ہے اور ملک کو بھی کہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ مرکزی حکومت اور اسے چلانے والی پارٹی ہی ہیٹ اسپیچ کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہے۔
عدالت کا یہ مشاہدہ کہ سیاسی جماعتیں ہیٹ اسپیچ سے سرمایہ بناتی ہیں اور ان کے پلیٹ فارم بن چکے جو ٹی وی چینلوں کے اینکراپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے، سب سے زیادہ اس پارٹی پر ہی لاگو ہوتاہے۔ کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس جماعت کے رہنما اور حامی ہی سب سے زیادہ ہیٹ اسپیچ دیتے آرہے ہیں۔
حتیٰ کہ اس کی حکومتیں چلانے والے لیڈر بھی اس سے گریز نہیں کرتے، اور نہ ہی اس سے ان کوکوئی تکلیف ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیتی برادری کےقتل عام کے لیے اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے وہ نام نہاد مذہبی لیڈوروں کی اپیل کے تئیں بھی انتہائی حد تک رودار ہی بنے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نوپور شرما جیسے ایک دو معاملات کو چھوڑ کر، یہ پارٹی نہ تو اپنے لوگوں کو ہیٹ اسپیچ سے روکتی ہے اور نہ ہی ہیٹ اسپیچ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے۔ نوپور شرما کے خلاف کارروائی بھی اس نے بین الاقوامی دباؤ میں دفاع کا کوئی راستہ نہیں رہ جانے پر بڑی ہچکچاہٹ سے کی۔
عدالت کا یہ کہنا بلاشبہ درست ہے کہ سوشل، الکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پرسب سے زیادہ ہیٹ اسپیچ دی جا رہی ہے، لیکن وہاں بھی ان میں سے زیادہ تر مرکزی حکومت اور اسے چلانے والی پارٹی کے رہنما، کارکن اور حامی ہی ،’اپنی’ حکومتوں کی عنایات کی وجہ سے مطلق العنان بنے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت نہ چاہے تو وہ اینکر بھی جن پر عدالت کے مطابق بڑی ذمہ داری ہے، اس طرح ولن بنے نہیں رہ سکتے۔
سچ پوچھیں تو وہ اس لحاظ سے بہت مجبور ہیں کہ نہ تو ان کے اقتدار کی سرپرستی والے مالکان انہیں اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کے خلاف بغاوت کر کے ملازمت سے ہاتھ دھونے کا خطرہ مول لے پاتے ہیں۔
اس پر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیٹ اسپیچ سے متعلق جس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ باتیں کہیں ہیں اور سوالات اٹھائے ہیں، اسے بھی بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے نے ہی دائر کر رکھا ہے۔ انہی کی طرح مرکزی اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر کو بھی اب مین اسٹریم چینل بڑا خطرہ نظر آنے لگے ہیں اور ان کی چیخ و پکار کی وجہ سے انھیں ‘دقت’ ہونے لگی ہے۔ لیکن صرف چیخنے چلانے سے۔
اگر اشونی کمار کی عرضی کا مقصد اپنی پارٹی اور حکومت کے مقصد کے لیے میڈیا کو اور بھی زیادہ کنٹرول کرنے کے لیے عدالت کی مداخلت کے ذریعے نئے اوزار حاصل کرنا ہے تو معاملہ الگ ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ آج ملک میں اکثر نیوز میڈیا ان ہاتھوں میں ہے جواس لیے خود کو حکومت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنائے ہوئے ہیں کہ ان پر منحصر حکومت بھی ان کے ہاتھوں میں کھیلتی اور ان کے مفاد میں فیصلے کرتی رہے۔
یہ ان کے باہمی فائدے کا ایسا معاملہ ہے جس میں ‘ملک کدھر جا رہا ہے’ جیسے سوال بالکل ثانوی بن گئے ہیں۔ ایک طنز نگار کے الفاظ مستعار لے کر کہیں تو ایسے نیوز میڈیا میں مدیران اور اینکروں کو کیمرے، کمپیوٹر یا قلم پکڑا کر ان کے ہاتھ پیچھےباندھ دیے گئے ہیں اور ان کو ریموٹ سے چلاتے ہوئےوہی سب لکھنے، دکھانے اور بتانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو سرکار بہادر کو راس آئے۔
ایسے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ اینکراپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھ رہے ہیں، تو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مرکز کی مودی حکومت کے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران اپنا فرض نبھا رہی صحافت کو کس طرح سے کچلا گیا ہے۔ ایسی صحافت کرنے والے صحافیوں کو نہ صرف زبردستی کارروائی کرکے جیل بھیج دیا گیا بلکہ آئی ٹی سیل کو پیچھے لگا کر بھی ان کے راستے میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
اس کے باوجود سپریم کورٹ سمجھتی ہے کہ اینکروں کے خلاف کارروائی کرکے ہیٹ اسپیچ کے مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے، تو اسے یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل کرنےکے لیے جڑوں پر حملے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اگر اس تقابل کو غیرمنطقی نہ سمجھا جائے تو اس معاملے میں اکثر ایڈیٹرز اور اینکرز کی حالت الیکشن کمیشن جیسی ہے، جس نے گزشتہ دنوں ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی سے دستبردار ہوتے ہوئے سپریم کورٹ میں دیے گئے حلف نامے میں اسی کی طرح گیند مرکز کے کورٹ میں ڈال دی تھی۔
اس کا کہنا تھا کہ وہ ہیٹ اسپیچ دینے والے امیدواروں پر اس وقت تک پابندی نہیں لگا سکتا جب تک کہ مرکز ہیٹ اسپیچ کی تعریف طے نہیں کرتا اور اسے ایسی کارروائی کا مناسب قانونی حق نہیں دیتا۔ ابھی تک اس کے پاس ہیٹ اسپیچ میں ملوث جماعتوں کو ڈی—رجسٹر کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔
کمیشن کے مذکورہ حلف نامہ کے باوجود مرکز نے آگے بڑھ کر یہ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھی ہے کہ وہ ہیٹ اسپیچ کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے جا رہا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے سماجی و ثقافتی تانے بانے کو تباہ کرنے والے اس مسئلے کے تئیں مرکز کا رویہ کیا ہے اور کیوں اس کی پارٹی کسی بھی قیمت پر اس کے فوائد سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی؟ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عدالت اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی یا صرف سوال پوچھ کر ہی چھوڑ دے گی؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)