اگر بنیادی حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی تو آئین کی اہمیت ختم ہو جائے‌ گی: سپریم کورٹ

07:50 PM Nov 21, 2019 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ اس وقت سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں/افسروں کے بولنے کی آزادی پر پابندیوں کو لےکر سماعت کر رہی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ریاست(حکومت)کا کام کرنے والےنجی  لوگوں کے ذریعے شہریوں کی زندگی اور غیر جانبدارانہ شنوائی کے حق جیسے بنیادی حقوق کی پامالی کا حل نہیں کیا جاتا ہے تو آئین اپنی اہمیت ختم ہوجائے گی ۔سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ اس وقت سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں/افسروں کے بولنے کی آزادی پر پابندیوں کو لےکر سماعت کر رہی ہے۔کورٹ نے کہا کہ آئین کے تحت زندگی، مساوات کا حق اور اظہار رائے کی آزادی جیسےبنیادی حقوق ریاست اور اس کی مشینری اور ریاست کا کام کرنے والے نجی فریق کے خلاف نافذ کرنے لائق ہیں، لیکن وہ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ شہریوں کے ایسے حقوق کی خلاف ورزی کے لئے ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

 اتر پردیش کے سابق وزیر، اعظم خان کی طرف سے ریپ کے معاملے میں کیے گئے  ایک متنازعہ تبصرہ سےاٹھے مدعے پر سماعت کے دوران جسٹس ارون مشراکی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا، ‘حکومت کا کام کرنے والے نجی فریقوں کے ذریعے(شہریوں کے)بنیادی حقوق کی پامالی کا کوئی حل نہیں کیا گیا توآئین کی  اہمیت ختم ہوجائے گی۔ ‘منصف کے معاون کے طور پر آئینی بنچ کی مدد کرنے والے سینئر وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ پبلک ورک کرنے کے لئے آپ کا سرکاری ملازم اور سرکاری ادارہ لازمی طور سے ہونے کا خیال دہائیوں پہلے ختم ہو چکا ہے کیونکہ نجی فرد اور کمپنیاں بھی اب ان کاموں کو کر رہی ہیں جن کو پہلے حکومت کا کام سمجھا جاتا تھا۔

 انہوں نے بنچ سے کہا کہ صرف سرکاری ملازمین‎کے عوامی خدمت کرنے والے اصول پردوبارہ غور کیا جانا چاہیے۔اس بنچ میں مشرا کے علاوہ جسٹس اندرا بنرجی، جسٹس ونیت سرن، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس ایس رویندر بھٹ شامل ہیں۔ سالوے نے نجی  لوگوں کے ذریعے کئے جا رہے سرکاری کاموں کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ سماج میں ترقی کے ساتھ، ریاست کا کردار کم ہو گیا ہے۔ سرکاری افسروں کاہماری زندگی میں کردار بھی محدود ہو گیاہے اور اسی کے مطابق ہمارے قانون کوبدلنا ہوگا۔

 اس پر بنچ نے کہا، ‘اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ریلوے اورٹول وصولی کا کام اگر نجی کمپنیوں کو دیا جاتا ہے تو ان کو بنیادی حقوق کو قائم رکھنے کے لئے ذمہ دار بنایا جانا چاہیے۔ ‘سالوے نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے نجی  اداروں کو خصوصی اختیارات کے ساتھ آئینی اصول کو اپنانے کا وقت آ گیا ہے۔ بنچ نے اس سے پہلے اعظم خان کے متنازعہ بیان کا نوٹس لیا تھا جس میں ایس پی رہنما نے 2016 میں بلندشہر میں ہوئے  گینگ ریپ کو ‘سیاسی سازش ‘ کا حصہ بتایاتھا۔ بعد میں خان نے سپریم کورٹ میں بنا شرط معافی مانگی تھی جس کو قبول‌کر لیاگیا تھا۔

 عدالت نے معاملے کو نپٹاتے ہوئے اس بڑے مدعے کا فیصلہ کرنے کے لئے اس کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ میں بھیج دیا تھا۔ سالوے نے کہا کہ جمہوریت بڑی نازک ہے اور یہ سسٹم  میں لوگوں کے اعتمادپر منحصر ہے اورہتک عزت کے قانون کا استعمال کسی آدمی کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ادارہ میں عوام کے بھروسے کو قائم رکھنے کے لئے کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘ جمہوریت، سسٹم  میں لوگوں کے بھروسے پر مبنی ہے اور اس کے علاوہ، کوئی وزیر آئین کے تحت حلف سے بندھا ہوا ہے اور آئینی اقدار کی حفاظت کےلئے پابند ہے۔ ‘

وکیل نے کہا کہ ایک وزیر جو آئین کے مطابق عہدہ اور رازداری کا حلف لیتاہے، اس کو اپنے آئینی حلف کے مطابق ہی اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق کسی وزیر کو اس بات کی آزادی نہیں دیتا ہے کہ وہ اس طرح کا بیان دے جو متاثر کی زندگی اور غیر جانبدارانہ سماعت کےحق کو غیرمؤثر کر دے۔وکیل نے کہا کہ اگر ریاست اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو متاثر آدمی ایسے غلط عوامی خدمت گاروں کے خلاف دیوانی قانون کے تحت معاوضہ کی مانگ‌کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘یہ ریاست کا آئینی فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور ایسا ماحول تیار کیا جائے جس میں ان حقوق کا لطف اٹھا سکیں۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)