راجیہ سبھا ممبر اور ایم ڈی ایم کے کی بانی وائیکو نے اپنی عرضی میں کہا کہ فاروق عبداللہ پر کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی ہے۔ یہ ان کے آئینی حقوق کی پامالی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایم ڈی ایم کے رہنما وائیکو کے ذریعے نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ کو پیش کرنے کو لےکر دائر عرضی پر مرکز سے جواب مانگا ہے۔
بار اینڈ بنچکے مطابق وائیکو کے وکیل نے کورٹ کو بتایا کہ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ عبداللہ حراست میں نہیں ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی جانکاری دستیاب نہیں ہے۔وکیل نے کہا،’ہمیں نہیں پتہ کہ کس قانون کے تحت اس کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ آئینی اہتماموں پر عمل کیا گیا تھا یا نہیں۔ ‘
یہ پوچھے جانے پر کہ عبداللہ حراست میں ہیں یا نہیں، سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت سے کہا کہ ان کو اس پر جانکاری لینی ہوگی اور کہا کہ جس کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے یہ عرضی دائر کی گئی ہے، وہ اب ختم ہو چکی ہے۔حالانکہ چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس عبدالنذیر کی بنچ نے اس معاملے میں نوٹس جاری کیا۔ مہتہ نے نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی اور اپیل کی کہ چونکہ مرکز کی نمائندگی کی گئی ہے اس لئے رسمی نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے مرکز سے معاملے میں ایک ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 30 ستمبر کو ہوگی۔وائیکو نے
عرضی دائر کرکے مانگ کی تھی کہ عبداللہ کو 15 ستمبر کو چنئی میں منعقد ہونے والے’ پیس فل، ڈیموکریٹک ‘ سالانہ کانفرنس میں شامل ہونے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہ پروگرام تمل ناڈو کے سابق وزیراعلیٰ سی این انّادرئی کے یوم پیدائش پر منعقد کیا گیا تھا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکز اور جموں و کشمیر کی کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی اورغلط ہے۔ زندگی کے تحفظ اور نجی آزادی کے حقوق اور گرفتاری اور حراست سے تحفظ کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے خلاف ہے جو جمہوری ملک کی بنیاد ہے۔اس میں کہا گیا ہے، ‘اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی جمہوریت میں مسلمہ اہمیت ہے کیونکہ یہ اپنے شہریوں کو مؤثر طریقے سے ملک کی حکومت میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ ‘