سپریم کورٹ نے ضابطے میں دی ڈھیل، مقدمہ کی سماعت تک مل سکتی ہے پیشگی ضمانت

06:40 PM Jan 30, 2020 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ پیشگی ضمانت عام طور پر تب تک ختم نہیں کئے جانے کی ضرورت ہے جب تک عدالت کے ذریعے اس کو سمن کیاجائے یا الزام طے کئے جائیں۔ حالانکہ یہ عدالت پر منحصر ہے کہ ‘ خاص یا خصوصی ‘معاملوں میں اس کی مدت طے کرے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ ایک آدمی کو دی گئی پیشگی ضمانت ضروری نہیں کہ ایک طے مدت کے لئے محدود ہو اور یہ مقدمہ کی سماعت پوری ہونےتک جاری رہ سکتی ہے۔عدالت نے کہا کہ حالانکہ یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ‘خاص یاخصوصی’معاملوں میں اس کی مدت طے کرے۔جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ پیشگی ضمانت عام طور پر تب تک ختم نہیں کئے جانے کی ضرورت ہے جب تک عدالت کے ذریعےاس کو سمن کیا جائے یا الزام طے کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ (پیشگی ضمانت)سماعت پوری ہونے تک جاری رہ سکتی ہے۔

بنچ میں جسٹس اندرا بنرجی، ونیت سرن، ایم آر شاہ اور ایس رویندربھٹ بھی شامل ہیں۔عدالت نے کہا، ‘…یہ عدالت مانتی ہے کہ کسی آدمی کو کوڈ آف کریمنل ضابطہ کی دفعہ 438 (گرفتاری کے خدشہ والے آدمی کو ضمانت دینے کی ہدایت سےمنسلک دفعہ)کے تحت دیا گیا تحفظ یقینی طور پر ایک طے مدت تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ بنا کسی وقت کی بندش کے اس کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہیے۔ ‘

بنچ نے کہا کہ کوڈ آف کریمنل ضابطہ کے اہتماموں کے تحت عام حالت میں ایک آدمی کو پیشگی ضمانت دی جاتی ہے اور اگر کوئی خاص حالت یا عامل اس جرم کےتناظر میں سامنے آتے ہیں تو یہ عدالت پر منحصر کرتا ہے کہ وہ مناسب شرط لگا سکتی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے کہا کہ ‘قانون سازمجلس نےپیشگی گرفتاری یا پیشگی ضمانت دینے، بالخصوص مدت کے تعلق سے یا چارج شیٹ دائر ہونےتک یا عدالتوں کی یا سنگین جرائم کے معاملوں کی طاقت یا ادراک پر پردہ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس لئے یہ سماج کے وسیع مفادات میں نہیں ہوگا اگر عدالت جوڈیشل وضاحت کے ذریعے اس اختیارات کے مشق کو محدود کرتا ہے۔ اس کا خطرہ یہ ہوگا کہ پچھلے 46سالوں میں جس قانون کو توضیحی  بنائے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا اثر بہت ہی محدود ہو جائے‌گا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ پیشگی ضمانت کے لئے درخواست کا فیصلہ کرتےوقت عدالت کو کچھ باتوں کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ درخواست پختہ حقائق  پر مبنی ہونی چاہیے نہ کہ ایک یا دوسرے مخصوص جرم سے متعلق غیر واضح یا عام الزامات پر۔

کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ہی درخواست کی جا سکتی ہے جب تک کہ حقیقت واضح نہیں ہو جاتے اور گرفتاری کے لئے مناسب بنیاد نہیں ہو۔یہاں تک کہ محدود مدت کے لئے عبوری ضمانت دینے سے پہلے عدالت سرکاری وکیل کو نوٹس جاری کر سکتی ہے اور حقائق کی مانگ‌کر سکتی ہے۔حکم میں کہا گیا،’عدالت کو جرم کی فطرت، آدمی کا کردار، جانچ‌کےدوران اس کے اثر کو متاثر کرنے، یا شواہد کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے (گواہوں کو ڈرانےسمیت)، انصاف سے بھاگنے کا امکان (جیسے ملک چھوڑنے) کا امکان وغیرہ پر غور کرناہوگا۔ ‘

شرطیں نافذ کرنے کی عدالتوں کو چھوٹ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس پر ہر معاملے میں الگ الگ بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوگا جو کہ ریاست یا جانچ  ایجنسی کے ذریعے دستیاب کرائے گئے مواد پر منحصر کرتا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ پیشگی ضمانت کا حکم اس معنی میں خالی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ملزمین کو آگے جرم کرنےکا اہل بنائے اور گرفتاری سے غیرمعینہ مدت حفاظت کے لئے راحت کا دعویٰ کرے۔یہ حکم جانچ ایجنسی کو یہ حق بھی دے‌گا کہ وہ کسی بھی شرط کی خلاف ورزی کی حالت میں ملزم کو گرفتار کرنے کے لئے عدالت جا سکے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)