جولائی 2018 میں سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد اور لنچنگ کے واقعات کو روکنے کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کئی گائیڈ لائن جاری کیے تھے۔ اب عدالت نے 2018 سے اس طرح کے پرتشدد واقعات کے سلسلے میں دائر کی گئی شکایتوں، ایف آئی آر اور عدالتوں میں پیش کیے گئے چالان سے متعلق سالانہ ڈیٹا جمع کرنے کو کہاہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کو سوال کیا کہ ہجومی تشدد اور لنچنگ کی سزا کے سلسلے میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔ جولائی 2018 میں عدالت نے اس طرح کے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام اور تعزیری اقدامات کے لیے کئی ہدایات دی تھیں۔
دی ہندو کے مطابق، سوموار کو جسٹس سنجیو کھنہ اور بیلا ایم ترویدی کی ایک ڈویژن بنچ نے ریاستی حکومتوں سے ہجومی تشدد اور لنچنگ کے واقعات کے سلسلے میں درج کی گئی شکایتوں، ایف آئی آر اور عدالتوں میں پیش کیے گئے چالان کے سلسلے میں2018 سے سالانہ ڈیٹا داخل کرنے کو کہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ وزارت داخلہ ریاستوں کے متعلقہ محکموں کے سربراہوں کے ساتھ میٹنگ کر سکتی ہے اور تحسین پونا والا معاملے میں 17 جولائی 2018 کے فیصلےپرسپریم کورٹ کی طرف سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر کی تعمیل میں اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں تازہ ترین سٹیٹس رپورٹ دے سکتی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، بنچ نے یہ کہتے ہوئے کہ سپریم کورٹ کے لیے ہر واقعے کا نوٹس لینا اوراس میں مداخلت کرنا ممکن نہیں ہوگا،متاثرہ لوگوں سے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے نچلی عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کو کہا ۔
درخواست گزاروں، جن میں تشار گاندھی بھی شامل ہیں،کے وکیل شعیب عالم نے عدالت سے درخواست کی کہ، گزشتہ ایک سال میں اس طرح کے کم از کم 10معاملے سامنے آئے ہیں…براہ کرم مرکز اور ریاست کو اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دیں۔
اس پرعدالت نے ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ 2018 کے فیصلے کی ہدایات کی تعمیل میں کیے گئے اقدامات کی تفصیل کے ساتھ اسٹیٹس رپورٹس داخل کریں۔
قابل ذکر ہے کہ جولائی2018 میں سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ،’ہجومی تشدد نہیں چل سکتا’، لنچنگ سے نمٹنے کے لیےحکومتوں سےقانون بنانے کو کہا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے کہا تھاکہ خوف اور انارکی کے ماحول سےنمٹنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور شہری خود قانون نہیں بن سکتے۔
فیصلے میں ریاستوں کواضلاع میں ہیٹ اسپیچ، ہجومی تشدد اور لنچنگ کے ممکنہ واقعات کے بارے میں خفیہ جانکاری اکٹھا کرنے کے لیےاسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) بنانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا تھاکہ یہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اشتعال انگیز پیغامات، ویڈیو وغیرہ کو روکنے کے لیے اقدامات کریں، جو ‘ کسی بھی طرح کےہجومی تشدد اور لنچنگ کو بھڑکا سکتے ہیں’۔ عدالت نے ہدایت دی تھی کہ پولیس ہجومی تشدد اور لنچنگ کی شکایات پر ایف آئی آر درج کرنے، ملزمین کو گرفتار کرنے، مؤثر تحقیقات کرنے اور چارج شیٹ داخل کرنے کی پابند ہے۔
بتادیں کہ اس سے پہلے دی وائر نے بتایا تھا کہ 2019 میں عدالت عظمیٰ نے ماب لنچنگ اور تشدد کو روکنے کے رہنما خطوط پر عملدرآمد نہ کرنے پر مرکز کے ساتھ ساتھ دس ریاستی حکومتوں کی سرزنش کی تھی۔
اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے اینٹی کرپشن کونسل آف انڈیا ٹرسٹ کی طرف سے دائر ایک درخواست پر وزارت داخلہ اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ جن 10 ریاستوں سے جواب طلب کیا گیاتھاوہ اتر پردیش، جموں و کشمیر، جھارکھنڈ، آندھرا پردیش، گجرات، راجستھان، بہار، آسام، مدھیہ پردیش اور دہلی تھے۔
سال 2022 میں، دی ہندو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ چار ریاستوں کی اسمبلی کے ذریعے منظور کیے گئے اینٹی ماب لنچنگ بل کسی نہ کسی وجہ سےعمل میں نہیں تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ جھارکھنڈ قانون ساز اسمبلی نے دسمبر 2022 میں ہجومی تشدد کے سلسلے میں قانون پاس کیا تھا، لیکن اسے گورنر کی منظوری نہیں ملی تھی۔
اس اخبار کے ذریعے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی کا جواب دیتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ راجستھان اسمبلی نے بھی 2019 میں ہجومی تشدد کے سلسلے میں قانون پاس کیا تھا، لیکن یہ ‘ریاستی حکومت/مرکزی وزارتوں/محکموں کے ساتھ بین وزارتی مشاورت میں ‘تھا۔
اخبار کے مطابق، منی پور کا 2018 کا قانون بھی وزارت کے تحت جانچ کے دائرے میں تھا، جبکہ مغربی بنگال کے ذریعے بنایا گیا قانون وزارت داخلہ کو نہیں بھیجا گیا تھا۔