مودی حکومت کے 2016 میں نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ نے اسے جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ،ٹیرر فنڈنگ وغیرہ کو ختم کرنا تھا، یہ بات غیر متعلق ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔
سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو کہا کہ 8 نومبر 2016 کو جس نوٹیفکیشن کے ذریعے مرکزی حکومت نے 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ جائزہے اور اسے ردنہیں کیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ 4 جنوری کو ریٹائر ہورہے جسٹس ایس اے نذیر کی سربراہی والی بنچ نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58 عرضیوں کی سماعت کر چکی ہے۔ بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، بی وی ناگ رتن، اے ایس بوپنا اور وی راما سبرامنیم شامل ہیں۔
بتادیں کہ مودی حکومت کے مذکورہ فیصلے نے ملک بھر میں خاص طور پر غریبوں اور دیہی ہندوستان میں رہنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی تھیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا تھاکہ
2016 کے اس فیصلے کے بعد سے اگلے ایک ماہ میں 82 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔
یہ فیصلہ جسٹس گوئی نے لکھا، جنہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کا ‘اس کےمقاصد کے ساتھ ایک رشتہ ‘تھا، جیسے کہ کالا بازاری، دہشت گردی کی مالی معاونت وغیرہ کو ختم کرنا، جسے وہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ اہم نہیں ہے کہ ان مقاصد کوحاصل کیا گیایا نہیں۔
لائیو لاء کے مطابق، بنچ نے کہا، ’52 دنوں کی مقررہ مدت کو غیرمناسب نہیں کہا جا سکتا۔’ فیصلے میں کہا گیا کہ نوٹ بندی کا نوٹیفکیشن تناسب کی کسوٹی پر بھی پورا اترتا ہے۔
تاہم، جسٹس بی وی ناگ رتن نے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت مرکزی حکومت کے اختیارات کے نکتہ پر اختلافی فیصلہ سنایا۔
لائیو لاء نے بتایاہے کہ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت دیے گئے اختیارات کا استعمال بینک نوٹوں کی پوری سیریز کو ختم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی خاص سیریز کو۔ عدالت نے کہا،’کسی’ لفظ کو محدود معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔
قابل ذکر ہے کہ 1934 کے ایکٹ میں کہا گیا ہےکہ ، مرکزی بورڈ کی سفارش پر مرکزی حکومت،گزٹ آف انڈیا میں نوٹیفکیشن کے ذریعے، نوٹیفکیشن میں بتائی گئی تاریخ کے اثر سے یہ اعلان کر سکتی ہے کہ کسی بھی مالیت کے بینک نوٹوں کی کسی بھی سیریز کا قانونی جوازختم ہو جائے گا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ وفود کی بنیاد پرآر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) کو غیر آئینی بتاکر رد نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس میں ‘اندرونی حفاظتی اقدامات’ ہیں۔
جسٹس ناگ رتن نے اپنے اختلافی فیصلے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مرکز کی طرف سے آر بی آئی سے رائے مانگنے کو آر بی آئی کی ‘سفارش’ نہیں کہا جا سکتا۔
واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ
آر بی آئی کے ساتھ مشورے کے بعد ‘سوچ سمجھ کر’لیا گیا فیصلہ تھا۔
تاہم دی وائر نے
اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 8 نومبر کو وزیر اعظم کی طرف سے فیصلے کا اعلان کرنے سے چند گھنٹے قبل آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ کے منٹس کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ ‘فیصلہ سازی کے عمل’ کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
غورطلب ہے کہ 7 دسمبر کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور آر بی آئی کو فیصلے سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کو کہا تھا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل آف انڈیا آر کے وینکٹ رمنی، آر بی آئی کے وکیل اور درخواست گزار کے وکیل سمیت سینئر ایڈوکیٹ پی چدمبرم اور شیام دیوان کی دلیلیں سنیں۔
بتادیں کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کو انتہائی ناقص قرار دیتے ہوئے چدمبرم نے دلیل دی تھی کہ حکومت قانونی ٹینڈر سے متعلق کسی بھی تجویز کو اپنے دم پر شروع نہیں کر سکتی،اس کوصرف آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی سفارش پر شروع کیا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 2016 کی نوٹ بندی کی قواعد پر غور کرنے کے سپریم کورٹ کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ عدالت ایسے کسی کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتی، جبکہ ‘گھڑی کی سوئی پیچھے کر کے’ کوئی راحت نہیں دی جا سکتی ہے۔
آر بی آئی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ ‘عارضی مشکلات تھیں اور وہ نیشن بلڈنگ کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہیں، لیکن ایک طریقہ کار تھا جس کے ذریعے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا گیاتھا’۔
اس سے قبل سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات کو مرکز کے فیصلے کی غلطی نہیں سمجھا جا سکتا۔
غورطلب ہے کہ 16 دسمبر 2016 کو اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی حکومت کے فیصلے کی قانونی حیثیت اور دیگر متعلقہ معاملات کو فیصلے کے لیے پانچ ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔
حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے درخواست گزار کہتے رہے ہیں کہ اس میں آئینی اہمیت کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ یہ سوال ابھی بھی کافی حد تک زندہ ہے کہ کیا حکومت ایک خاص زمرے کی پوری کرنسی کو ختم کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کو لاگو کر سکتی ہے اور اگر اس کاجواب نہیں دیا جاتاہے تو حکومت مستقبل میں اس کا اعادہ کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کو صحیح نہیں ٹھہرایا: کانگریس
دریں اثنا، کانگریس نے سوموار کو کہا کہ یہ کہنا پورے طور پر گمراہ کن اور غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کو جائز ٹھہرایا ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ سنایا ہے کہ کیا نوٹ بندی کے اعلان سے پہلے ریزرو بینک ایکٹ 1934 کی دفعہ 26(2) کو صحیح طریقے سے لاگو کیا گیا تھا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نوٹ بندی ایک تباہ کن فیصلہ تھا جس سے معاشی ترقی رک گئی اور لاکھوں نوکریاں ختم ہوگئیں۔
رمیش کے مطابق، عدالت کے فیصلے میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کے بیان کردہ مقاصد پورے ہوئے یا نہیں۔
وہیں، پی چدمبرم نے فیصلے کے بعد ٹوئٹ کیا ہے کہ اختلافی فیصلے نے نوٹ بندی میں غیر قانونی اور بے قاعدگیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا’یہ حکومت کے لیے صرف ایک چھوٹی سی تنقید ہو سکتی ہے، لیکن یہ خوش آئند ہے۔’
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)