سدرشن نیوز چینل نے فلسطین پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ایک پروگرام‘بند اس بول’میں سعودی عرب کی ایک مسجد پر میزائل فائرکرتےہوئے دکھایا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے چینل نے میٹامورفک گرافکس کا سہارا لیا تھا۔ چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے نے شو میں کہا تھا کہ اسرائیل کی حمایت کریں کیونکہ وہ اپنے دشمنوں اور جہادیوں کوصحیح طریقے سے ہلاک کر رہا ہے۔
نئی دہلی: ہیٹ اسپیچ اور مسلم مخالف خبریں نشر کرنے کو لےکر آئے دن تنازعہ میں رہنے والے سدرشن نیوز چینل کے خلاف گزشتہ 18 مئی کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
نیوزلانڈری کی ایک رپورٹ کے مطابق، سدرشن نیوز چینل پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ15 مئی کو نشر ہوئے اپنے پرائم ٹائم شو ‘بند اس بول’میں میٹا مورفک گرافکس کا استعمال کیا اور فیک نیوز دکھایا تھا۔
‘بند اس بول’ پروگرام اس چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے خود پیش کرتے ہیں۔
سدرشن نیوز چینل نے فلسطین پر اسرائیل کے حملے کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ایک پروگرام میں سعودی عرب کے مدینہ واقع مسجد پر میزائل فائرکرتے ہوئے دکھایا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے چینل نے میٹا مورفک گرافکس کا سہارا لیا تھا۔
چینل کے ایڈیٹر ان چیف سریش چوہانکے نے شو میں کہا تھا کہ اسرائیل کی حمایت کریں کیونکہ وہ اپنے دشمنوں اور جہادیوں کوصحیح طریقے سے ہلاک کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں رضا اکیڈمی کے ایک وفد نے ممبئی کے ایڈیشنل پولیس کمشنر سنیل کولہے سے ملاقات کر چینل کے خلاف کارروائی کی مانگ کی تھی اور ساتھ ہی پائیدھونی پولیس چوکی میں شکایت بھی درج کرائی تھی۔
اس کے علاوہ انڈین سول لبرٹیز یونین(آئی سی ایل یو)نے بھی اس شو پر اعتراض کیا اورمرکزی وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کو خط لکھ کر کہا کہ یہ پروگرام‘اشتعال انگیز،قابل اعتراض اورپرتشدد’ہے۔
آئی سی ایل یو نے یہ بھی کہا کہ مدینہ کی مسجد پر حملہ کرتے دکھانا سعودی عرب کے ساتھ ہندوستان کے رشتوں کوخراب کر دےگا۔اس معاملے کو لےکرتنازعہ کھڑا ہونے کے بعد 20 مئی کو سدرشن چینل نے کہا کہ اس طرح کی گرافکس کا استعمال کرنا ان کی ‘فنکارانہ آزادی’ ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب سدرشن نیوز کا ‘بند اس بول’پروگرام تنازعہ میں آیا ہے۔پچھلے سال اگست کے آخری ہفتے میں جاری اپنے ایک ٹریلر میں چوہانکے نےہیش ٹیگ یو پی ایس سی جہاد لکھ کر نوکر شاہی میں مسلمانوں کی گھس پیٹھ کی سازش کرنے کا بڑاانکشاف کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس شو کو 28 اگست کو رات آٹھ بجے نشرہونا تھا، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے اسی دن اس پر روک لگا دی تھی۔اس کے بعد 9 ستمبر کو وزارت اطلاعات و نشریات نے چینل کو پروگرام کے ٹیلی کاسٹ کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے اسے نوٹس بھیجا تھا، لیکن وزارت نے اس کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد اس پروگرام کے ٹیلی کاسٹ کے بارے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزار کے وکیل نے اس پروگرام کے ٹیلی کاسٹ پر عبوری روک لگانے سمیت کئی راحت مانگی تھی۔
اس کے بعد 15 ستمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے اگلے حکم تک چینل کے ذریعے‘بند اس بول’ کے ایپی سوڈ کےٹیلی کاسٹ پر روک لگا دی تھی۔ کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ پروگرام پہلی نظر میں ہی مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے والا لگتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 15 ستمبر کی شنوائی کے دوران عدالت نے میڈیا رپورٹنگ اورسیلف ریگولیشن کی بات بھی اٹھائی تھی، جس کے جواب میں17تاریخ کی شنوائی میں سرکار کا کہنا تھا کہ پہلے ڈیجیٹل میڈیا کا ریگولیشن ہونا چاہیے، پرنٹ الکٹرانک میڈیا کے لیے خاطر خواہ ریگولیشن موجود ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سدرشن ٹی وی اور سریش چوہان کے اس طرح کے پروگرام کی وجہ سے تنقید کے گھیرے میں ہیں۔جون 2018 میں دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی)نے سدرشن نیوز کو
ایک نوٹس جاری کر کےاس رپورٹ پر معافی مانگنے کو کہا تھا جس میں انہوں نے دہلی کے بوانا علاقے کے کچھ مقامی لوگوں کو مبینہ طور پر ‘روہنگیا’ اور ‘بنگلہ دیشی ‘ بتایا تھا۔
کمیشن نے چینل سے کہا تھا کہ اس کا ثبوت پیش کریں، ورنہ بنا شرط تحریری معافی مانگیں۔اس کے علاوہ سال 2018 میں چوہان کے نے
ایک ٹوئٹ کرکے اس سال دسمبر میں بلندشہر میں ہوئے تشدد کو تبلیغی جماعت کےاجتماع سے جڑا ہوا بتایا تھا۔ بلندشہر میں تین دسمبر 2018 کو مبینہ گئوکشی کو لےکرہوئےتشدد میں انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا قتل کر دیا گیا تھا۔
بعد میں بلندشہر پولس نے ٹوئٹ کرکے وضاحت دی تھی کہ یہ تشدد جماعت کے لوگوں کی اجتماع کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔بتا دیں کہ ہندوستان میں مختلف سول سروسز کے امتحانات کی ذمہ داری یوی پی ایس سی کی ہے، جو قومی سطح پر ایک لمبے پروسس میں انہیں کرواتا ہے۔
آئی اے ایس،آئی پی ایس اورآئی ایف ایس میں جانے کے خواہش مند امیدوار ان میں حصہ لیتے ہیں۔حالانکہ ان امتحانات میں عمر،تعلیمی اہلیت امتحان دینے کی کوششوں کے بارے میں کئی ضابطےہیں، لیکن کسی بھی مذہب کے ہندوستانی اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔