کچھ مہربان دلیل دے رہے ہیں کہ درجہ بندی سے دلت ایکتا کمزور ہوگی۔ دلتوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہادلت والمیکی/مذہبی، مسہر، مادیگا جیسی دلت کمیونٹی ایکتا کے نام پر کبھی یہ سوال نہ کرے کہ وہ اگلی صف میں کیوں نہیں ہے۔
درج فہرست ذاتوں اور قبائل کےلیے ریزرویشن میں درجہ بندی پر سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آتے ہی ایک زوردار بحث چھڑ گئی ہے۔ ویسے اسے بحث کہنا غلط ہو گا۔ اس فیصلے اور عدالت پر درج فہرست ذاتوں کے اثر و رسوخ رکھنے والےطبقے نے حملہ بول دیا ہے۔
احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے درج فہرست ذات کے ریزرویشن میں درجہ بندی کا راستہ کھول دیا ہے۔ جن کا نعرہ تھا ،’جس کی جتنی سنکھیا( تعداد) بھاری، اتنی اس کی حصے داری’، وہی آج سامنے آکر احتجاج کا نگاڑہ پیٹ رہے ہیں۔
یہی لوگ جنہوں نے ریزرویشن کا فائدہ اٹھایا اور جو 85فیصد کا نعرہ بھی لگایا کرتے تھے، آج وہ درج فہرست ذاتوں کے محروم ترین لوگوں کو اپنی صف میں شامل نہیں کرنا چاہتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ان کے ردعمل سے صاف ظاہر ہے کہ 85فیصد کا نعرہ محض نعرہ تھا۔ 85 فیصدجو غیر مرئی آبادی ہے ،اس کو یہ لوگ اگلی صف میں نہیں آنے دینا چاہتے۔
حقیقت میں،دیکھا جائے تو ریزرویشن ایک یقینی حصے داری کا نام ہے۔ یعنی ہر طبقے کو دینا پڑے گا۔ عام آدمی پارٹی کی طرح نہیں کہ بابا صاحب کی تصویر لگا کر راجیہ سبھا میں 13 میں سے ایک بھی دلت کو منتخب نہیں کیا۔ حصے داری کو یقینی بنانے کے لیے درجہ بندی ضروری ہے۔
ریزرویشن کی درجہ بندی پر ایک بہترین مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کا کہنا ہے کہ جب کوئی ٹرین کے ڈبے میں دھکا مکی کرکے گھس جاتا ہے تو اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اب کوئی اور نہ گھس پائے۔
دوسری مثال خود بابا صاحب امبیڈکر کی ہے جو ایک ماں کی طرح ہے جو زندگی کو ایک جدوجہد کی طرح ڈھورہی ہے، وہ اپنے بچوں کو ایک برتن میں یہ سوچ کر کھانا دے دیتی ہے کہ وہ مل بانٹ کر کھالیں گے اورمیں کوئی اور کام کرلیتی ہوں۔ لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جو بچہ کسی وجہ سے طاقتور اور ہوشیار ہوتا ہے وہ جلدی جلدی زیادہ حصہ کھا لیتا ہے۔ کئی بار دوسرے بچوں کی توجہ ہٹا کر بھی سارا حصہ ہڑپ کرجاتا ہے۔
مہادلت والمیکی/مذہبی سماج یا مسہر یا مادیگا یا چاکلیہ یا ارونتھاتھیار وہ برادریاں ہیں جو درج فہرست ذاتوں کے ریزرویشن کااستعمال نہیں کر پائیں۔ کئی بار، تاریخی وجوہات کی بنا پر، کوئی کمیونٹی اس پوزیشن میں ہوتی ہے کہ وہ اس ریزرویشن کو استعمال کرسکے اور باقی نہ کر پائیں۔
کیا درج فہرست ذاتوں کے نسبتاً مضبوط طبقوں نے ہاتھ بڑھا کر اپنے پیچھے رہ جانے والے طبقات کو ساتھ لانے کی کوشش کی؟
آج تک دنیا میں ایسا نہیں ہوا کہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو آگے لانے کی اجتماعی کوشش اگلی صف میں پہنچنے والوں نے کی ہو۔ یہ کام خود ہی کرنا پڑتاہے اور حق و اختیارات کی زبان میں ہی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔
والمیکی اور روی داسی تھے دونوں اچھوت۔ لیکن پھر بھی تھوڑا سا فرق تھا۔ایک بازار کےکنارے جوتے پالش کرتے ہوئےمول بھاؤ کرتا تھا۔ دوسرے کو گندگی اٹھانے کے عوض میں پیسہ نہیں، بھکاری کی طرح روٹی دی جاتی تھی ۔ مول بھاؤ کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ایک نے بازار کو سمجھ لیا، دوسرا گاؤں میں سیری (خدمت کے عوض ملنے والی خود کاشت زمین) اور سحر کامسہر بن کر رہ گیا۔
اس بار میں ایسےایسے چہروں سے نقاب اترتے دیکھ رہا ہوں جو دلت کی ہی نہیں بلکہ 6000 ذاتوں کو متحد کرنے کا دعویٰ کرتے تھے اور ان کے خود ساختہ لیڈر بنے ہوئےتھے۔ مایاوتی جی نے کبھی نہیں کہا کہ وہ صرف جاٹوں کی لیڈر ہیں۔ ہاں شاید ان کا دل یہی کہتا تھا، جو اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پنڈت کا بچہ ہی پنڈت بنے گا اور کھشتریا کا پوت ہی راجپوت ہو گا۔ ٹھیک ویسے ہی درجہ بندی کی مخالفت کرنے والوں یعنی ریزرویشن کا فائدہ اٹھا چکے طبقے کی اندرونی اور آخری خواہش یہی ہے کہ افسر اور لیڈر بننے کا حق انہی کے پاس محفوظ رہنا چاہیے۔
بہت عجیب و غریب دلائل دیے جا رہے ہیں۔ جیسے مایاوتی جی کہہ رہی ہیں کہ یہ ایمرجنسی ہے۔ دیکھیے جب اپنے جیسے دلت کو حصہ بانٹنے کا سوال آیا تو اسے ایمرجنسی بتایا جا رہا ہے اور جب ان کے اقتدار میں رہتے ہوئے تمام سرکاری نوکریوں کوٹھیکہ داری میں کیا جا رہا تھا تب کوئی ایمرجنسی نہیں تھی؟
کچھ مہربان دلیل دے رہے ہیں کہ درجہ بندی سے دلت اتحاد کمزور ہوگا۔ دلتوں میں پھوٹ پڑ جائےگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہادلت والمیکی/مذہبی، مسہر، مادیگا جیسی دلت برادریوں کو اتحاد اور ایکتا کے نام پرکبھی یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ وہ اگلی صف میں کیوں نہیں ہیں۔
یہی دلیل اس وقت بھی دی جا رہی تھی جب بابائے قوم ڈاکٹر امبیڈکر ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تب بھی کہا جا رہا تھا کہ ملک میں پھوٹ پڑ جائے گی اور ملک کمزور ہو جائے گا۔ لیکن آج تک ایسا کہیں نظر نہیں آیا جہاں دلتوں کی وجہ سے ملک میں پھوٹ پڑی ہو۔
ان دلیلوں کے برعکس ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ یہی ساراریزرویشن ہڑپ کر جانے والے دلتوں میں پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو پیچھے ہی رکھتے ہیں۔ پہلی مثال مایاوتی جی کی ہی لے لیجیے۔ اتر پردیش اسمبلی کے 403 ٹکٹ بانٹتے وقت مایاوتی جی اس بات کا پورا خیال رکھتی ہیں کہ ایک بھی ٹکٹ والمیکی قوم کو نہ دیا جائے۔
مایاوتی جی نے اتر پردیش کے کئی اضلاع کا نام دلتوں کی عبقری شخصیات کے نام پر رکھا ،لیکن والمیکی نام کہیں نہیں رکھا۔ ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد صفائی عملے کی آسامیوں پر بھرتی کی ۔ لیکن ان میں 8000 والمیکی بھی منتخب نہیں کیے گئے۔ توجہاں وہ پورے ہو سکتے تھے وہ جگہ بھی ان سے چھین لی گئی۔
مایاوتی گوہانہ گئیں ، نہ ہی مرچ پور پہنچیں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اگر یہ دلت اتحاد کا مسئلہ ہے تو گوہانہ اور مرچ پور کے دلت ان کی ہمدردی کے لائق کیوں نہیں ہیں؟ جبکہ انہی دنوں کے دوران پیش آنے والے دیگر واقعات میں وہ اس لیے پہنچی کیونکہ وہاں دلت نہیں اپنی کاسٹ کا مسئلہ تھا۔
مایاوتی کی طرح ہی کانگریس میں بھی دلت خاتون لیڈر ہیں۔ اٹل حکومت کے دور میں ایک اسکیم بنائی گئی تھی۔ اس کا نام تھا والمیکی امبیڈکر ہاؤسنگ اسکیم۔ جیسے ہی کانگریس (یو پی اے) کی حکومت بنی، والمیکی کا نام اس اسکیم سے ہٹا دیا گیا۔ بی ایس پی، بی اے ایم سی ای ایف اور اس جیسی تنظیموں کے جتنے بھی پوسٹر، بینر وغیرہ چھپتےہیں ان میں کیا تمام بہوجن برادریوں کی نمائندگی ہوتی ہے؟
ہمارا ماننا بھی ہے کہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل میں کریمی لیئر کو لاگو نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن درجہ بندی اسی طرح ضروری ہے جس طرح بابا صاحب امبیڈکر نے پورے ملک کے ساتھ رہتے ہوئے دلتوں کے لیے الگ سے حصے داری کے نظام کا مطالبہ کیا تھا۔
دلت ایکتا میں پھوٹ مہادلت نہیں ڈال رہے ۔ نہ ہی ہماراکبھی ایسا ارادہ ہے۔ ہماری اب بھی تمام دلت اعلیٰ ذاتوں سے اپیل ہے کہ وہ اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھیں اور یہ سمجھیں کہ جس دن مہادلت برادری بھی معاشی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی طور پر ترقی کرے گی، اس دن پوری دلت برادری کی طاقت بڑھے گی۔
(درشن رتن راون آدی دھرم سماج کے صدر ہیں۔)