بے باک کلیکٹو کی جانب سے جاری ایک حالیہ رپورٹ میں ملک میں گزشتہ چند برسوں میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور نفرت انگیز جرائم میں اضافے کے باعث مسلم کمیونٹی کو درپیش سماجی، جذباتی اور مالی مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
جب تشدد، امتیازی سلوک اور ذلت کا مسلسل سامنا کیا جا رہا ہو توایسے میں ان کے اثرات کو پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) جیسی طبی اصطلاحات کی روشنی میں بھی بالکلیہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ سماجی کارکن اور محقق حسینہ خان اپنی حالیہ تحقیق ، جس میں سودیتی جی ایم اور عمرہ زینب شریک قلمکار کی حیثیت سے شامل ہیں ، میں کہتی ہیں کہ صدمے کا ردعمل (ٹروما رسپانس) مسلسل جاری رہتاہے اور اس کا اپنا ایک دائرہ ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ دماغی صحت، خود انحصاری، قوت برداشت اور سروائیول کے معنی و مفہوم کواز سر نو واضح کرنے کے لیے ایک نئے لینس اور نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
ان کی تنظیم ‘بےباک کلیکٹو’ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں محققین نے مختلف ریاستوں میں الگ الگ تعلیمی پس منظر والے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات اور ذاتوں کے مسلمانوں سے بات چیت کی، تاکہ فرقہ وارانہ ماحول میں کمیونٹی کی زندگی اور ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھا جا سکے۔
یہ مطالعہ، جسے اپنی نوعیت کا واحد تحقیقی مطالعہ تصور کیا جارہا ہے، رواں سال فروری میں شروع ہونےکے بعد چھ ماہ کے عرصے میں پوراکیا گیا۔ رپورٹ میں گزشتہ چند سالوں میں ملک میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور نفرت انگیز جرائم میں ڈرامائی اضافے کے باعث مسلم کمیونٹی کو درپیش سماجی، جذباتی اور مالی مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
تحقیقی طریقہ کارکی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ، ہم نے اپنے دائرہ کو وسیع رکھا اور ان کارکنوں کے سے بات چیت کی جن کو حراست میں لیا گیا ، اس ساتھ ہی سماجی کارکنوں کے دوستوں، لنچنگ کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ، مسلمان مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں، فسادات کے متاثرین اور جیل میں بند لوگوں کے گھر والوں سے بھی بات چیت کی گئی ۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان ذہنی صحت، خود انحصاری،قوت برداشت اور سروائیول کے معنی ومفہوم کو از سر نوواضح کرنے کی اشد ضرورت ہے، محققین نے فلسطینی وزارت صحت میں ذہنی امراض کی یونٹ کی صدر ڈاکٹر سماح جبر کا کئی جگہوں پر حوالہ دیا ہے۔ جبر کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض کے دستیاب/مغربی زمرے اور پی ٹی ایس ڈی کی طبی تعریفیں فلسطینیوں کے تجربات پر لاگو نہیں ہوتی ہیں۔
‘پی ٹی ایس ڈی اس امریکی فوجی کےتجربات کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے جو بمباری کے لیے عراق جاتا ہے اور امریکہ کی حفاظت کے لیے واپس لوٹ جاتا ہے۔ اس کو برے خواب آتے ہیں اور میدان جنگ سے وابستہ ڈر اس کے اندر گامزن ہے اور اس کا یہ ڈرخیالی ہے۔ جبکہ غزہ میں ایک فلسطینی کے لیے، جس کے گھر پر بمباری کی گئی تھی، اس کے لیے دوبارہ بمباری کا خوف بہت حقیقی ہے۔ یہ خیالی نہیں ہے۔ کوئی ‘پوسٹ’ یعنی بعد میں ہونے والی بات نہیں ہے کیونکہ ٹروما بار بار ہو رہا ہے اور مسلسل جاری ہے۔
بے باک کلیکٹوکی رپورٹ میں صدمے (ٹروما) کی بہت سی وجوہات میں سے شروعات’قانون کے ذریعے’ بھڑکائے جانے والے تشدد پر گہری نظر ڈالنے کے ساتھ کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کومنظم طریقے سے الگ تھلگ کرنے میں قانون کے رول کو ہندو اکثریتی تصور اور زمینی سطح پر اس کے لیے کی جارہی کوششوں کو ہوا دینے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ قوانین اس خیال کو تقویت دینے کے ارادے سے متعارف کرائے گئے کہ ‘مسلمان ‘ہندو’ راشٹرکے طور پر اکثریتی تصور کے لیے ایک قومی اور وجود ی خطرہ پیدا کرتے ہیں’۔
حالیہ برسوں میں، خاص طور پر شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف مظاہروں اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی کے رجسٹر (این پی آر) کو لانے کے ارادے کےساتھ کمیونٹی کے
لیڈروں،
کارکنوں اور یہاں تک کہ
مسلمان صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا۔
ایک نوجوان بلال،جس کے بھائی کو فروری 2020 میں دہلی فسادات کے بعد ایک معاملے میں مبینہ طور پر پھنسایا گیا تھا، کہتے ہیں، ‘مجھے رات میں نیند نہیں آتی۔ میں ساری رات عدالت کی ویب سائٹ ہی دیکھتا رہتا ہوں۔
شاہین باغ سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن طیبہ نے محققین کو بتایا،اگر خاندان میں باپ یا بھائی بولڈ اور سیاسی طور پر متحرک ہیں، تو حکومتی ردعمل آنے پر خاندان کے باقی افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اگر خاندان کے سربراہ رکن کو گرفتار کیا جاتا ہے، تو علیحدگی اور بہت سی پریشانیاں ہوتی ہیں کیونکہ سیکورٹی فراہم کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
انہوں نے یاد کیا کہ جب ان کے شوہر کو گرفتار کیا گیا تھاتو انہیں اکیلے ہی تھانے جانا پڑا تھااور اس وقت کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ ٹروما کی مسلسل صورتحال اکثر متاثرین کی روزمرہ کی زندگی اور بات چیت کے انداز کو بدل دیتی ہے۔ وہ بیرونی دنیا کے ساتھ کس طرح بات چیت کرتے ہیں،بنیادی طور پر ان کی مذہبی پہچان اور وہ کہاں اور کیسےآتے جاتے ہیں، کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کس کے ساتھ کتنی بات کرتے ہیں، اس پر گہرا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسی طرح، رپورٹ میں پایا گیاکہ فسادات کی وجہ سے مواقع سے محروم ہوجانے والے نہ صرف خاندانوں کے معاشی امکانات کو محدود کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے امنگوں، خوابوں اور امیدوں کو بھی بدل دیتے ہیں۔
ایک بات چیت میں دہلی سےتعلق رکھنے والے 22 سالہ بلال نے بتایا کہ اس نے دہلی میں میڈیکل کے شعبے میں اپنا کیریئر بنانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن فسادات کی وجہ سے اسے 12ویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات چھوڑنے پڑے۔ وہ اب 22 سال کے ہیں اور اسکول ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کی کوشش کمپیوٹر کورس کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کی بھی ہے۔
کرناٹک میں حکومت کی طرف سے کلاس رومز میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے بعد کئی لڑکیوں نے اپنی بات چیت میں اپنے دوستوں اور آس پاس کے لوگوں سے ملنے والی حمایت سے محروم ہوجانے کی بات کہی ہے۔
بنگلورو میں دماغی صحت کی ایک پریکٹیشنرشمیمہ اصغر امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والی کمیونٹیز کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘لوگ دوستوں سے مایوس ہونے کی بات کرتے ہیں، رشتوں کو کھونے کی بات کرتے ہیں،حتیٰ کہ ان کے پاس اس رشتے کے خاتمے کا دکھ ظاہر کرنے کے لیے جگہ بھی نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ انہیں رشتے ختم کرنے پڑے، وہ نفرت پھیلانے والے لوگ تھے۔ اس کی وجہ سے میں نے بھی بہت سے دوستوں کو کھو دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘ذہنی صحت اپنی کلینکل پریکٹس میں انتہائی شخصی ہوسکتی ہے۔’ وہ بتاتی ہیں کہ اس میں ٹروما اور اور تکالیف سے نمٹنے کے طریقے کے طور پر تشدد کے جڑوں کی جانچ نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا مقصد اس سے متاثرہونے والے لوگوں پر اس کے برے اثرات کوکم کرناہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں،’ایک طرح سےکہیں تو یہ ایسا کہنے کا طریقہ ہے کہ آپ جس تشدد کا سامنا کر رہے ہیں وہ جاری رہے گا؛ آپ کو صرف اس کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیونٹی یا دوستوں کو کھو دینا قانونی معاملوں میں مشکل صورت حال کو سنبھالنے میں یا کسی پرتشدد واقعے کے بعد زندگی کو پھر سے شروع کرنے کی حالت میں کسی کی بھی خود اعتمادی اور تحفظ کے احساس کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
رپورٹ کے نتیجے میں کہا گیا ہے، ایک فاشسٹ حکومت اور نفرت انگیز نظریے کے سامنے بے بسی کا ہمہ گیر احساس، جس نے فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہونے والے بہت سے مسلمانوں کو اپنی طرز زندگی کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے، یہ سب سے اہم نکتہ ہےجو ہماری تحقیق میں سامنے آیا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)