کشمیر کے موجودہ حالات پرشہلا رشید نے ٹوئٹ کر کے فوج پر اذیت رسانی کا الزام لگایا تھا۔ مرکزی وزیر نے ان الزامات پر کہا کہ ملک کی بربادی چاہنے والوں کو کچلنا ہوگا۔
سرینگر میں 8 اگست 2019 کو سُنسان سڑک پر کھڑے سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق اسٹوڈنٹلیڈراور جموں وکشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی کی رہنما شہلا رشیدکے ذریعے فوج پر لگائے گئے الزامات پر وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ان الزامات سے عوام میں غصہ ہے۔انہوں نے ایک
ٹی وی چینل کو دیے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کوئی غلط بات نہیں سن سکتے ۔ ریڈی نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جموں و کشمیر کو لے کر جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں ۔ ہندوستان کی بربادی چاہنے والوں کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ایسے لوگ اور پارٹیوں کو کچل دینا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ جو ہندوستان کی بربادی کی بات کرتے ہیں ، ان کی حمایت کرتے ہیں ، افضل گرو کے بارے میں بات کرتے ہیں ، ایسے لوگوں اور ایسی طاقتوں کو کچلنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ، کسی کو ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے ۔ اس موضوع کو لے کر آنے والے دنوں میں پورے سماج کو سوچنا چاہیے۔غور طلب ہے کہ
شہلا رشید نے فوج پر اذیت رسانی کا الزام لگایا ہے ، حالاں کہ فوج نے ٹوئٹ کرکے شہلا کے الزامات کی تردید کی ہے۔نیوز چینل کو دیے اپنے انٹرویو میں کشن ریڈی نے کہا کہ ہندوستانی فوج اور پیراملٹری فورس کے بارے میں غلط بات کرنے والوں کی ہم نہیں سنیں گے ۔ وہ چاہے پاکستان ہو یا ملک کی کوئی سیاسی پارٹی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فیک نیوز پھیلا رہا ہے ۔ ریڈی نے یہ بھی واضح کیا کہ آنے والے دنوں میں وزارت داخلہ اور بھی قدم اٹھانے والا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اتوار کو جموں وکشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی کی رہنما شہلا رشید نے ٹوئٹ کی ایک سیریز شیئر کی تھی، جس میں انہوں نے کشمیر سے آرہے لوگوں کے حوالے سے وادی میں پیش آرہے مختلف مدعوں کے بارے میں لکھا تھا۔شہر میں گیس ، ڈیزل وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ شہلا نے اپنے ٹوئٹ میں ایک جگہ یہ کہا کہ کچھ علاقوں میں سکیورٹی اہلکار گھر میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں ، لڑکوں کو اٹھا رہے ہیں اور جان بوجھ کر گھروں کا راشن برباد کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شوپیاں میں چار لوگوں کو فوج کے کیمپ میں بلا یا گیا اور پوچھ تاچھ کے نام پر ان کو اذیت دی گئی ۔ شہلا نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس ایک مائیک رکھا گیا تاکہ ان کی چیخ پورا علاقہ سنے اور ڈرجائے۔اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پید اہو گیا ہے۔
شہلا کے ان الزامات کے بعد ہندوستانی فوج نے ان الزامات کو بے بنیاد بتایا تھا۔ہندوستانی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ، شہلا رشید کے الزامات بے بنیاد ہیں اور ہم ان کو قبول نہیں کر سکتے ہیں ۔ ایسی غیر مصدقہ اور فرضی خبریں شر پسند عناصر اور تنظیموں کے ذریعے انجان آبادی کو بھڑکانے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔
اس بیچ شہلا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ انہوں نے لوگوں سے وادی کے حالات کے بارے میں لمبی بات چیت کی ہے اور جن واقعات کے بارے میں انہوں نے ٹوئٹ کیا ہے ، ا ن کے بارے میں اگر فوج غیر جانبداری سے جانچ کرے تو وہ ان سے جانکاری شیئر کرنے کو تیار ہیں ۔رشید نے کہا،’ہندوستانی فوج کو غیر جانبدارانہ جانچ کرنے دیجیے۔مجھے ان کے ساتھ یہ جانکاری شیئر کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔میں نے ٹوئٹر تھریڈ میں جو لکھا،وہ متوازن ہے۔ میں نے انتظامیہ کے ذریعے کیے مثبت کاموں کی بھی بات کی ہے۔ سبھی 10 پوائنٹ لوگوں سے کی گئی بات چیت پر مبنی ہیں۔’
غور طلب ہے کہ فوج یا حکومت کی طرف سے ا ن کے باقی ٹوئٹس کو لے کر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے۔
شہلا نے آگے کہاتھا،’انٹر نیٹ ،فون اور اخباروں سمیت کسی میڈیا کے نہ ہونے کی حالت میں کشمیر میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے،جس سے باقی دنیا انجان ہے۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 4ہزار،6 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔واضح طور پر یہ خود سے دی گئی گرفتاریاں تو نہیں ہیں۔ لوگوں کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے، اذیت دی جا رہی ہے،گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت کے پاس دنیا سے چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو کمیونیکیشن ذرائع پر روک کیوں ہیں؟’
5 اگست کو مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور ریاست کو 2 یونین ٹریٹری میں باٹنے کے فیصلے کے بعد سے ہندوستانی میڈیا کے ایک بڑے طبقے کے ذریعے یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر میں ماحول پر سکون ہے۔حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا سے آ رہی رپورٹ اس کے برعکس تصویر پیش کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ جموں و کشمیر سے لوٹے سماجی کارکنوں کی
ایک فیکٹ فائینڈنگ ٹیم نے بھی کہا کہ پورے کشمیر میں مرکزی حکومت کے فیصلے کو لے کر غصہ ہے کیونکہ عوام کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔سماجی کارکن زیاں دریج،کویتا کرشنن، میمونہ ملااور ومل بھائی نے گزشتہ ہفتے جاری پریس ریلیزمیں بتایا تھا کہ نوجوان لڑکوں کو بنا کسی غلطی کے اٹھایا جا رہا ہے۔لوگ حکومت ،فوج یا پولیس کے ذریعے ہونے والے ظلم و ستم کے ڈر کے سایے میں رہ رہے ہیں۔غیر رسمی بات چیت میں تو وہ اپنا غصہ ظاہر کرتے ہیں،لیکن کوئی کیمرہ پر بولنے کو تیار نہیں ہے۔