فلسطین میں جاری تنازع کو پچاس سے زیادہ دن ہو چکے ہیں، اور اب تک 12000 سے زائد فلسطینی عوام شہید ہوچکے ہیں،لیکن ابھی تک چند ممالک نے ہی فلسطینیوں کی حالت زار پر لب کشائی کی ہے اور ان میں سے بھی صرف ایک ملک یعنی جنوبی افریقہ نے واضح طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی اقدامات کیے ہیں، اور اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فوٹو بہ شکریہ: ڈبلیو ایچ او
سات (7) اکتوبر کے بعد، حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد، زیادہ تر عالمی برادری کشیدگی میں اضافے کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار تو کررہی ہے لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو ان میں سے زیادہ تر ممالک اسرائیل کا ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کرتے چند ایک ممالک ہی نظر آرہے ہیں۔
جن ممالک نے لڑائی روکنے اور اس مسئلے کے سیاسی حل کے لیے زور دیا ہے وہ بھی صرف زبانی جمع خرچ کرتے نظر آرہے ہیں بغیر کسی جامع یا ٹھوس اقدامات کے۔ اس فہرست میں زیادہ تر اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
اس کے برعکس جنوبی افریقہ وہ واحد ملک ہے جس نے غزہ میں نہتے فلسطینی بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں پر اسرائیلی بربریت کی پرزور مذمت کی ہے۔ 17/ نومبر کو بین الاقوامی عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں فلسطینی علاقوں کی صورتحال کی تحقیقات کے لیے پانچ ممالک کی طرف سے مشترکہ درخواست موصول ہوئی ہے۔
پراسیکیوٹر کریم کاہن نے کہا کہ یادداشت جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، بولیویا، کوموروس اور جبوتی سے آئی ہے۔ جنوبی افریقہ نے کہا کہ یہ درخواست ”اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے کہ آئی سی سی فلسطین کی سنگین صورتحال پر فوری توجہ دے اور اس کے خلاف اقدامات کرے۔“
اگرچہ، اسرائیل عدالت کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا لیکن آئی سی سی بعض حالات میں غیر رکن ریاستوں کے شہریوں سے تفتیش کر سکتا ہے، بشمول جب رکن ممالک کے علاقوں میں جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ فلسطینی علاقے 2015 سے آئی سی سی کے ممبران کی فہرست میں شامل ہیں۔
جنوبی افریقہ اور فلسطین کے درمیان جذباتی تعلقات اس وقت سے موجود ہیں جب ان دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے غیروابستہ تحریک کے دو سرکردہ رہنما یعنی نیلسن منڈیلا اور یاسر عرفات دونوں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف اکٹھے مہمات چلارہے تھے۔شاید اسی وجہ سے جنوبی افریقہ کے موجودہ سیاست داں اس مشکل گھڑی میں فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہوئے سب سے آگے کھڑے نظر آرہے ہیں اور اس صف میں دور دور تک کسی نام نہاد اسلامی ملک کا نام شامل نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک فعال کارروائی کرتے ہوئے، جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیل کے حملے پر مشاورت کے لیے تل ابیب سے اپنے تمام سفارت کاروں کو واپس بلا لیا۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے وزارت خارجہ کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ جنوبی افریقہ میں اسرائیل کے سفیر ایلیو بیلوٹسرکوسکی کے طرز عمل سے نمٹنے کے لیے ضروری سفارتی اقدامات اٹھائے، جن کا طرز عمل ان کے بقول انتہائی ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ بیلوٹسرکوسکی پر فلسطینیوں پر حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کے خلاف تبصرے کرنے کا الزام ہے۔
جنوبی افریقہ ان مٹھی بھر افریقی ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود جنوبی افریقہ نے فلسطین کی آزادی کی بھرپور وکالت کی ہے اور دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات لیسیبا ٹیفو نے جنوبی افریقی حکومت کے ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے انادولو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جنوبی افریقہ اور فلسطین کے درمیان کئی دہائیوں سے تاریخی تعلقات ہیں اور یہ ان کے لیے اہم ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی آزادی کی حمایت کریں۔”فلسطین نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران جنوبی افریقہ کے ساتھ تھا، جبکہ برطانیہ اور امریکہ نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا لیکن وہ ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ یہ سیاق و سباق اہم ہے،“ اس نے انادولو کو بتایا۔ ٹیفو نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ گذشتہ برسوں سے فلسطین کی حمایت میں مستقل مزاجی سے کام کر رہا ہے۔
اسی یونیورسٹی میں سیاست کے ایک اور پروفیسر ڈرک کوٹزے نے انادولو کو بتایا کہ جنوبی افریقہ کی حکمران افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ساتھ دیرینہ مراسم رہے ہیں۔ اور ان رشتوں کو سابق جنوبی افریقی صدر نیلسن منڈیلا نے تقویت دی تھی۔
ایک انٹرویو میں نیلسن منڈیلا کے پڑپوتے سیابولیلا منڈیلاایو نے کہا کہ جنوبی افریقہ کے بے ہودہ تشدد اور جبر سے آزاد ہونے کے باوجود وہ (نیلسن) اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کامیاب رہے کہ ہماری آزادی اس وقت تک مکمل نہیں جب تک فلسطین کے لوگ آزاد نہیں ہوتے۔
منڈیلا نے کہا کہ ان کے پردادا، جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کو یہ سوچنے کے لیے مثالی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے ملک میں نسل پرستی کا کوئی حل موجود ہے اور اگر ایسا ہوا تو لوگ اسے ایک معجزہ سمجھیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا اور اس لڑائی میں یاسر عرفات ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آئے۔
دریں اثنا، گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے غزہ میں آئی ڈی ایف کی “نسل کشی کی کارروائی” کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔جنوبی افریقہ پارلیامنٹ نے بھی گزشتہ ہفتے صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر بحث کی۔ پارلیمنٹ میں سرکردہ جماعتیں، خاص طور پر حکمراں اے این سی اور تیسری بڑی جماعت، اکنامک فریڈم فائٹرز (ای ایف ایف)، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے حامی ہیں۔
حالیہ برسوں میں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی ماہرین نے تیزی سے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی پالیسیوں کو نسل پرستی کے طور پر بیان کیا ہے، جس سے ایک دیرینہ بحث میں اضافہ ہوا ہے کہ آیا یہ اسرائیل کے طرز عمل کی درجہ بندی کرنے کا ایک درست طریقہ ہے یا نہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے استدلال کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی فلسطینی زمین تک رسائی، نقل و حرکت پر پابندیاں، اور ووٹ دینے کے حق پر پابندیاں آئی سی سی کے معیار پر پورا اترتی ہیں اور اس نے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کو ادارہ جاتی شکل دی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اسرائیلی یہودی پورے فلسطین میں غالب رہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے (او پی ٹی)، جس میں مغربی کنارہ اور غزہ بھی شامل ہیں۔
مجموعی طور پر اس بات پر شدید حیرت ہوتی ہے کہ نام نہاد اسلامی ریاستوں کو جنوبی افریقہ کی طرح اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ شاید ان کے اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی ہوس، کیونکہ ان ممالک میں سے زیادہ تر بادشاہتیں ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اپنے عوام کی خواہشات کو برقرار رکھنے کے پابند نہیں ہیں، جب کہ ان ممالک میں سے زیادہ تر عوام نے سڑکوں پر آکر فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز اٹھائی ہے لیکن سرکاری سطح پران ملکوں نے ابھی تک کوئی بھی ٹھوس اقدام نہیں لیا ہے۔
لیکن جب تک جنوبی افریقہ جیسے باشعور اور باہمت ملک موجود ہیں تب تک فلسطینیوں کی اپنی سرزمین کے لیے لڑائی کو یکطرفہ اور ناجائز طور پر کسی بھی طرح ختم نہیں کرایا جاسکتا، اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فلسطین میں فلسطینی ہی آباد رہیں، دوسری کوئی قوم نہیں۔
(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)