امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان کن ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔
نئی دہلی: امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان ڈیبی ڈنگیل نے کہا ہے کہ کشمیر کے حالات ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ کی خاتون رکن پارلیامان ڈیبی ڈنگیل نےنئی بنی یونین ٹریٹری (جموں و کشمیر) میں نظربند لوگوں کو چھوڑنے اور مواصلاتی خدمات پر لگی پابندیوں کو ہٹانے کی اپیل کرنے والی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے حالات ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔
ہندوستانی نژاد امریکی رکن پارلیامان پرمیلا جئے پال نے ایوان میں اس بارے میں تجویز نمبر 745 گزشتہ سال دسمبر میں پیش کیا تھا۔ اس کو کل 36 لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے دو ری پبلکن اور 34 حزب مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر ہیں۔ پرمیلا جیپال نے ہندوستان سے وہاں لگائی گئی مواصلاتی پابندیوں کو جلد سے جلد ہٹانے اور تمام باشندوں کی مذہبی آزادی کومحفوظ رکھے جانے کی اپیل کی تھی۔
پرمیلا ہاؤس آف ری پریزنٹیٹو میں پہلی اور واحد ہندوستانی امریکی رکن پارلیامان ہیں۔ ڈنگیل نے سوموارکی رات ٹوئٹ کیا، ‘ کشمیر کی موجودہ صورتحال ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ غیرمنصفانہ طریقے سے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون تک نہیں ہے۔ ‘
The situation in Kashmir violates human rights. Thousands have been detained unjustly & millions are without access to the internet & telephones. That’s why I signed onto House Resolution 745 so the U.S. can let the world know we will not stand by while these violations happen.
— Rep. Debbie Dingell (@RepDebDingell) January 13, 2020
انہوں نے کہا، ‘ اس لئے میں نے تجویز 745 پر دستخط کئے ہیں تاکہ امریکہ دنیا کو بتا سکے کہ ہم ان خلاف ورزی کو ہوتا ہوا نہیں دیکھیںگے۔ ‘ ڈنگیل مشی گن کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ تجویز ابھی ضروری کارروائی کے لئے ‘ہاؤس آف فارن افیئرس کمیٹی ” کے پاس ہے۔
اس بیچ رکن پارلیامان بریڈ شرمین نے کہا کہ وہ ہندوستان میں امریکی سفیر کینیتھ جسٹر کے جموں و کشمیر کے حالیہ سفر پر ان کی رپورٹ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ شرمین نے کہا، ‘ مجھے امید ہے کہ رپورٹ کے ذریعے یہ واضح ہوگا کہ سفیر نے کیا پابندی دیکھیں خاص طورپر، سفیر حراست میں لئے لوگوں سے مل پائے یا نہیں۔ ‘
غور طلب ہے کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد جسٹر سمیت 15 ممالک کے سیاسی رہنما موجودہ صورتحال کا معائنہ کرنے کے لئے سرینگر گئے تھے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال اکتوبر مہینے میں جموں و کشمیر کی صورتحال پر امریکی پارلیامنٹ کی خارجہ امورکی کمیٹی نے کہا تھا کہ مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگانے سے تباہ کن اثر پڑ رہا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان ان پابندیوں کو ہٹا لے۔
واضح ہو کہ،گزشتہ مہینہ امریکی وزارت خارجہ نے جموں و کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے اور مواصلاتی ذرائع پر پابندی لگائے جانے کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لینے پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان سے انسانی حقوق کی عزت کرنے کی اپیل کی تھی۔امریکہ نے ہندوستانی افسروں سے ریاست کے مقامی رہنماؤں سے سیاسی بات چیت شروع کرنے اور جلد از جلد انتخاب کرانے کو بھی کہاتھا۔
اس کے بعد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو لے کر ایک ہندوستانی-امریکی خاتون رکن پارلیامان پرمیلا جیسوال سمیت دو امریکی رکن پارلیامان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائیک پومپیوسے اپیل کی تھی کہ وہ کشمیر میں مواصلات کے ذرائع کو فوراً بحال کرنے اورحراست میں لیے گئے سبھی لوگوں کو چھوڑنے کے لیے ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)